اربوں روپے کی منی لانڈرنگ- ٹیکس چوری اور مشکوک ٹرانزیکشنز کے سینکڑوں کیسز کی تفتیش برسوں سے زیرِ التوا ہے، فائل فوٹو
اربوں روپے کی منی لانڈرنگ- ٹیکس چوری اور مشکوک ٹرانزیکشنز کے سینکڑوں کیسز کی تفتیش برسوں سے زیرِ التوا ہے، فائل فوٹو

معاشی دہشت گردوں کا گھیرا تنگ ہونا شروع

عمران خان :
معاشی دہشت گردوں کا گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا گیا۔ مقتدر ادارے کی معاونت سے ملک بھر کے تاجروں اور کمپنیوں سے ریکوری کیلئے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے 100 سے زائد کیس، مقدمات قائم کرنے کیلئے کسٹمز انٹیلی جنس کو بھیج دیئے گئے۔ کسٹمز انٹیلی جنس میں اینٹی منی لانڈرنگ کی خصوصی ٹیمیں قائم کردی گئیں۔ مضبوط کیس بنانے کیلئے افسران کی تربیت کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق ملک کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے ملزمان تاجروں ،صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے خلاف موثر کارروائیوں کا فیصلہ کیے جانے کے بعد اس پر مستقل بنیادوں پر عمل در آمد کے لئے اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ جس کیلئے خصوصی طور پر اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کیلیے ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس کے کراچی، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور اسلام آباد کے صوبائی دفاتر کو 100سے زائد بڑے مالیاتی اسکینڈلز کی فائلیں بھیجی گئی ہیں۔ جن پر کسٹمز کے مختلف کلکٹریٹس اور ڈائریکٹوریٹس کی جانب سے پہلے ٹیکس چوری، جعلسازی اور اسمگلنگ کے روایتی کیس بنائے گئے ہیں۔

ذرائع کے بقول یہ فیصلہ حساس اداروں کی ان رپورٹس کی روشنی میں کیا گیا ہے جو چند ماہ تک کسٹمز، ایف بی آر اور ایف آئی اے کی مختلف ٹیموں کے ساتھ کام کرکے مرتب کی گئی ہیں۔ ان رپورٹوں میں مقتدر ادارے اور وفاقی وزارتوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اس وقت ملک کو سب سے زیادہ معاشی نقصان ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ سے پہنچایا جا رہا ہے۔ جس کا حجم ملک سے مجموعی طور پر ہونے والے زر مبادلہ کی غیر منتقلی کا 70 فیصد سے بھی زائد ہے۔

ان رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ سے وہ 3 طرح کے کمپنی مالکان منسلک ہیں جو بیرون ملک سے منگوائے جانے والے سامان کی قیمتیں مس ڈکلریشن کے ذریعے کم سے کم ظاہر کرکے اربوں روپے کی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے نمبر پر ایسے تاجر ہیں جو ملک میں ایران اور افغان ٹرانزٹ سے اسمگلنگ کے ذریعے آنے والے سامان کو جعلی کمپنیاں رجسٹرڈ کروا کر ان کے ذریعے جعلی خرید و فروخت کی بوگس انوائسیں بناکر اپنے لئے اربوں روپے کی سیلز ٹیکس چوری کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

جبکہ تیسری قسم کے وہ بڑے صنعتکار اور سرمایہ دار ہیں جو مذکورہ دونوں اقسام کی جعلسازیاں یعنی انڈر انوائسنگ کے ذریعے درآمد کرکے اور اسمگلنگ کا سامان جعلی انوائسوں پر استعمال کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔

مذکورہ رپورٹس میں ان حقائق سے بھی آگاہ کیا گیا کہ ایسے ٹیکس چوروں اور زر مبادلہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کرانے والے ہزاروں ایسی کمپنی مالکان کے خلاف گزشتہ کئی برسوں میں ایف بی آر اور کسٹمز کی جانب سے ٹیکس چوری، جعلسازی اور اسمگلنگ کی تمام ہی دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے جاتے رہے ہیں۔ تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر ان کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ کیونکہ ان قوانین کے تحت بنائے گئے مقدمات میں ملزمان کو روایتی کمزور تفتیش، قوانین شہادت میں موجود سقم اور ماہر وکلا کی خدمات کے ذریعے عدالتوں سے 100 فیصد ریلیف ملنے کا امکان موجود رہتا ہے۔

جبکہ ایسی کارروائیوں میں حکومتی اداروں کے کروڑوں روپے کے وسائل صرف ہوجاتے ہیں اور ریکوری کچھ بھی نہیں ہوپاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف ٹیکس چوری، اسمگلنگ اور جعلسازیوں سے مالیاتی جرائم کرنے کے ہر کیس میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ایک نیا کیس بنایا جائے۔

رپورٹس کے مطابق چونکہ 2019ء میں ٹیکس چوری اور اسمگلنگ سے اربوں روپے کا کالا دھن بنانے والے ملزمان کیخلاف سخت کارروائیوں کیلئے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 اور کسٹمز ایکٹ میں کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ جس کے تحت اب کسٹمز اور ایف بی آر کی فیلڈ فارمیشنز کو یہ اختیار حاصل ہوچکا ہے کہ وہ ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کے روایتی کیسز کی تفتیش میں اگر یہ سمجھیں کہ ملزمان کیخلاف ان جرائم سے پیسے کماکر دیگر کاروبار میں لگانے یا اثاثے بنانے کے ثبوت مل گئے ہیں تو ان کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ کی کارروائی شروع کردی جائے۔ کیونکہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ہونے والے مقدمہ میں ملزمان کے اثاثے بحق سرکار ضبط کرکے قومی خزانے میں منتقل کرنے کا آپشن موجود ہے۔ جبکہ روایتی کیسز میں عدالتیں ان کی دفعات کے مطابق سزائوں کو فیصلہ کرتی ہیں۔

ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں جب ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس کے صوبائی دفاتر کو 100 سے زائد بڑے مالیاتی اسکینڈلز کی فائلیں بھیجی گئیں تو ساتھ ہی ڈائریکٹر کسٹمز انٹیلی جنس کراچی انجینئر حبیب کی خصوصی کاوشوں سے کسٹمز انٹیلی جنس کے تفتیشی افسران کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت تحقیقات میں مہارت سے لیس کرنے کے اقدامات بھی شروع کردیے گئے ہیں۔

پہلے مرحلے میں ایف آئی اے میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت قائم کیے جانے والے کئی بڑے اسکینڈلز کی تحقیقات کا تجربہ اور مہارت رکھنے والے افسر روئف شیخ کے ذریعے کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے 2 درجن کے لگ بھگ افسران کو تربیت دلوائی گئی ہے۔ جس کے مکمل ہونے پر ایک تقریب میں تربیت حاصل کرنے والے تفتیشی افسران کو اسناد دلوائی گئیں۔ ان تفتیشی افسران نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت درجنوں انکوائریوں پر کام شروع کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک متعدد مقدمات بھی قائم کر دیئے گئے ہیں۔