عمران خان :
وطن عزیز کی بدنامی کا سبب بننے والے بھکاریوں کا عمرے اور زیارت کی آڑ میں سعودیہ اور عراق جانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جبکہ ان ممالک میں پاکستانی بھکاریوں کے حوالے سے کچھ سختیاں ہونے کے بعد عالمی گداگروں کے منظم گروپوں نے نئی منزلیں اور ممالک تلاش کر لئے ہیں۔ جن میں جاپان، ملائیشیا اور بعض افریقی ممالک شامل ہیں۔ کیونکہ اس دھندے میں سالانہ اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ رواں برس اکتوبر کے آغاز میں ’’امت‘‘ میں اس ضمن میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ روز ایف آئی اے کی جانب سے ملتان ایئرپورٹ سے مزید 8 بھکاریوں کے پکڑے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ ان گداگروں کو کیوں نہیں روکا جاسکا۔ ایف آئی اے کے بعض سینئر افسران نے مزید معلومات حاصل کی تو اس منظم مافیا کے حوالے سے اہم حقائق سامنے آئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ پاکستان سے سعودی عرب اور عراق وغیرہ جانے والے گداگروں کا سلسلہ 1990ء کی دہائی میں تیز ہوا۔ اس سے قبل سرائیکی علاقوں سے خصوصی طور پر بچوں کو خلیجی ممالک بھیجا جاتا تھا۔ جہاں انہیں اونٹوں کی ریس میں استعمال کیا جاتا۔ تاہم اس پر عالمی سطح پر مہم چلنے کے بعد یہ سلسلہ کم ہوا تو انہی علاقوں سے گداگروں کے پورے پورے خاندانوں کو خلیجی ممالک لے جانے کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اب 30 برس میں اس مافیا نے اس قدر مضبوط جڑیں پکڑ لی ہیں کہ ایف آئی اے تمام تر کوششوں کے باجود ان پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ اس میں ایف آئی اے کے اپنے حکام اور افسران کی نااہلی بھی شامل ہے۔ جس کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ ڈائریکٹوریٹ اسلام آباد اور صوبائی سرکلز کی جانب سے آج تک ان عالمی گداگروں کے حوالے سے کوئی ڈیٹا مرتب نہیں کیا گیا اور نہ ہی پکڑے جانے والے اور ڈیپورٹ ہونے والے بھکاریوں سے تفتیش کرکے علاقائی سطح پر ان کے سرگرم گروپوں اور ایجنٹوں کی نشاندہی کی جاسکی۔ زیادہ تر ایسے پروفیشنل بھکاری پنجاب کے علاقوں رحیم یارخان، ملتان، صادق آباد، راجن پور، چولستان، شہداد کوٹ اور جیکب آباد وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
تازہ کارروائی کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ دو روز قبل ایف آئی اے امیگریشن کی جانب سے ملتان ایئرپورٹ پر بڑی کاروائی کی گئی۔ جس میں بیرون ممالک بھیک مانگنے کی غرض سے جانے والے 9 مسافروں کو آف لوڈ کر دیا گیا۔ ملزمان عمرے کی آڑ میں فلائٹ نمبر PA870 سے سعودی عرب جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق ایک خاتون ایجنٹ بھی ملزمان کی ہمراہ جا رہی تھی۔ گرفتار ملزمان کے پاس کسی قسم کی ہوٹل بکنگ نہیں تھی۔ ملزمان میں 6 خواتین اور 2 مرد شامل ہیں۔ جنہیں مزید تفتیش اور قانونی کارروائی کیلئے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل ملتان منتقل کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس معاملے میں رواں برس ستمبر کے آخر میں اس وقت حکومت نے ایف آئی اے کو ملک بھر کے ایئرپورٹس پر کریک ڈائون کی ہدایات جاری کی تھی۔ جب سعودی عرب اور عراق سے درجنوں گداگروں کو حراست میں لے کر پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سعودیہ اور عراقی حکام کی جانب سے آنے والے ردعمل میں خود پاکستانی سینیٹ منظور کاکڑ کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے اجلاس میں سیکریٹری او سیز پھٹ پڑے تھے کہ عرب ممالک میں 90 فیصد گرفتار بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری اوور سیز ذوالفقار حیدر نے بتایا تھا کہ حرم کے اندر سے جتنے جیب کترے پکڑے جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے اور یہ بڑی بدنامی کی بات ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول اسی گداگر مافیا کی وجہ سے پاکستان کا امیج اس حد تک خراب ہوچکا ہے کہ عراقی حکام نے ایئرپورٹ اور سرحدی چوکی پر پہنچنے والے پاکستانیوں سے ویزے لے کر رکھنے شروع کر دیئے ہیں کہ واپسی پر انہیں لوٹا دیئے جائیں گے۔
ان ہدیات کے بعد ایف آئی اے امیگریشن حکام کی جانب سے ملتان، لاہور وغیرہ کے ایئرپورٹس پر اب تک 5 مختلف کارروائیوں میں 50 کے قریب ایسے شہریوںکو جہازوں میں بیٹھنے سے روک کر اس وقت آف لوڈ کر دیا گیا۔ جب وہ عمرے کیلئے سعودی عرب جا رہے تھے۔ یہ شہری بچوں اور عورتوں کے ساتھ تھے۔ ان کو حراست میں لے کر مزید تفتیش کیلئے ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کے حوالے کردیا گیا۔ جہاں انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے مختلف ایجنٹوں سے فی کس ڈیڑھ لاکھ روپے کے عوض عمرے کے ویزے لئے۔ جبکہ ٹکٹ اور رہائش کیلئے انہیں پاکستان سے ہی سعودیہ میں موجود ایجنٹوں سے رابطہ کروایا گیا۔ جو ان کی آمد کے منتظر تھے۔ تاہم ایف آئی اے کی جانب سے ان گداگروں سے ملنے والی معلومات پر کارروائی انہی تک محدود رکھی گئی اور ان کے اعترافات کی روشنی میں ان کے ایجنٹوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
’’امت‘‘ کو ایک سینئر ایف آئی اے افسر نے بتایا کہ اس وقت کم سے کم ایجنٹوں کے 50 سے زائد گروپوں نے مقامی گداگروں کے ذریعے سعودی عرب اور عراق میں بھیک منگوانے کا دھندا شروع کر رکھا ہے۔ عمرہ، زیارت اور تعلیم کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث یہ ایجنٹ ان گداگروں اور ان کے خاندانوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور ان کی کمائی سے ماہانہ وصولیاں کرتے ہیں اور یوں برس ہا برس ان کی کمائی سے عیاشیاں کرتے ہیں۔ ایف آئی اے افسر کے مطابق ان 6 مخصوص علاقوں سے ماضی میں جانے والے درجنوں ایسے بھکاری اب کروڑ پتی ایجنٹ بن چکے ہیں۔ جنہیں اس منافع بخش دھندے کیلئے تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں کے ان علاقوں میں سرگرم عہدیداروں و جاگیر داروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
تاہم ذرائع کے مطابق اس مافیا پر کنٹرول کرنے میں سب سے بڑی کوتاہی حکومت اور ایف آئی اے کی اپنی ہے۔ کیونکہ جب بھی بیرون ملک سے بدنامی کی وجہ سے دبائو آتا ہے تو وقتی طور پر ایف آئی اے کو سرگرم کردیا جاتا ہے اور پھر معاملہ دبنے پر معمول کے مطابق خاموشی ہوجاتی ہے۔ 100 گداگراگر بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں تو کارکردگی دکھانے کیلئے 10ی ا 15کو روک لیا جاتا ہے اور باقی نکل جاتے ہیں۔ کیونکہ ان پر ویزوں، پاسپورٹ اور ٹکٹ کی مد میں ایجنٹوں اور ان کے سرپرستوں نے لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہوتی ہے۔ جن کے ضائع ہونے کے خدشات پر ایف آئی اے کے بعض افسران اور اہلکاروں کو سیٹنگ میں لے لیا جاتا ہے۔