محمد قاسم :
افغان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی کا ایک سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ نے افغانستان پر مزید پابندیوں کے نفاذ پر غور شروع کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے افغانستان میں خوراک کی صورتحال گمبھیر ہونے کا امکان ہے۔ 33 رہنمائوں پر مزید سفری پابندیوں کا بھی خطرہ ہے۔ جبکہ روس نے امریکہ سے افغان حکومت کیلئے رقم کی ترسیل پر پابندی اٹھانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ جس کے بعد خواتین کا تعلیمی سلسلہ بحال ہونے کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ کیونکہ افغانستان میں سالانہ چھٹیاں یکم جنوری سے یکم اپریل تک شروع ہو رہی ہیں۔ جس سے خواتین کا مزید ایک سال ضائع ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ نے طالبان حکام سے درخواست کی تھی کہ جن طالبات کی تعلیم مکمل ہونے میں ایک سال باقی ہے۔ ان کیلئے انتظامات کرنے میں اقوام متحدہ مدد کیلئے تیار ہے۔ جس پر طالبان حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ طالبات کا تعلیمی سلسلہ بحال کیا جارہا ہے۔ لیکن ایک سال گزرنے کے باجود کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جس پر اقوام متحدہ نے طالبان حکومت پر مزید پابندیاں لگانے پر غور شروع کر دیا ہے۔
گزشتہ روز اقوام متحدہ کے اجلاس میں تمام ممالک نے طالبان حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر طالبان نے آئندہ چند روز میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اقدامات سے آگاہ نہ کیا تو اقوام متحدہ طالبان حکومت کو ماہانہ 40 کروڑ ڈالرز کی امداد بند کر دے گا۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
ذرائع کے بقول اقوام متحدہ ماہانہ 40 کروڑ ڈالرز امداد افغانستان میں خوراک، ادویات اور بچوں کی تعلیم کی مد میں دے رہا ہے۔ جس سے لاکھوں افغانوں کا گزر بسر ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اگر یہ امداد بند کر دی گئی تو افغانستان میں 40 لاکھ کے قریب بچے غذائی قلت کا شکار ہوجائیں گے۔
امت کو معلوم ہوا ہے کہ افغانستان میں اس وقت تقریباً ایک کروڑ افراد کے پاس صرف ایک وقت کا کھانا موجود ہے اور ان افراد کا گزارا ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔ اگر یہ امداد بند ہو گئی تو ایک کروڑ افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ادویات کا بندوبست بھی مشکل ہوجائے گا۔ جبکہ اس وقت افغانستان کے شمال میں شدید سردی کے سبب لوگوں کو موسمی بیماریوں کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایک طرف یہ مشکلات ہیں تو دوسری طرف پاکستان کی جانب سے تقریباً 3 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جا چکا ہے۔ جن کی بحالی بھی افغان حکومت کیلئے انتہائی مشکل کام ہے۔ ان مہاجرین کی واپسی سے افغان حکومت اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی بھی پیدا ہوئی ہے۔ جبکہ مزید مہاجرین کی واپسی افغان حکومت کو شدید مشکلات کا شکار کر سکتی ہے۔
افغان ذرائع کے مطابق پاکستان کے ساتھ کشیدگی طالبان حکومت کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر سکتی ہے۔ ان ذرائع کے بقول افغان حکومت اور اقوام متحدہ کو یقین نہیں تھا کہ پاکستان اس بار لاکھوں افغان مہاجرین کو اس سخت سردی میں واپس افغانستان بھجوائے گا۔ کیونکہ پاکستان نے اس سے قبل بھی اس طرح کے اعلانات کیے تھے۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔
ذرائع کے مطابق طالبان کھل کر اس کا اظہار نہیں کر سکتے کہ افغانستان کے اندر انہیں غذائی قلت کے ساتھ ساتھ دیگر مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت حقیقت میں ملک کے اندر تجارت اور معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سالانہ افغان ایکسپورٹ سے بھی ادویات کی ضرورت پورا نہیں کی جا سکتی۔ جبکہ تعمیر نو کیلئے بھاری مشینری کی الگ ضرورت ہے۔
دوسری جانب روس نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے منجمد 9 ارب ڈالرز جاری کرے۔ تاکہ افغانستان کے اندر لوگوں کی مشکلات کم ہو سکیں۔ کابل میں روسی صدر کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے افغان وزیر خارجہ امیر خان منقی کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری ایک بیان میں یہ مطالبہ کیا۔