کراچی (اسٹاف رپورٹر)کراچی یونیورسٹی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے سپلاکے مرکزی صدر پروفیسرمنور عباس کی جانب سے جاری بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک سینئر استاد، اسکالراور ملک کی نامورجامعہ کے وائس چانسلر کے لئے غیر شائستہ اور غیر مہذب زبان کا استعمال نہ صرف استادکے منصب کی توہین ہے بلکہ طلبہ کے اذہان وقلوب سے بھی استاد کے احترام کو کم کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔دوسری طرف منورعباس نجی جامعات کی راہ ہموار کرنے کے لئے جامعہ کراچی سے کالجوں کے الحاق کو ختم کرنے کی کوشش اور پورے ملک اور بالخصوص شہر کراچی کے غریب اور متوسط طبقہ کو تعلیم سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
منور عباس بتائیں کہ کیا وہ اس شہر کے متوسط اور غریب طلبہ کو نجی جامعات کی بھاری فیسوں کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں
منورعباس نے کالج اساتذہ کے مشاہرے کے حوالے سے بھی غلط بیانی اور حقائق سے منافی گفتگو کی ہے،امرواقعہ یہ ہے کہ کالج اساتذہ کے2018 تا 2022 ء تک کے بلز کے 400 سے زائد چیک جاری کئے جاچکے ہیں جس کی تفصیل شعبہ امتحانات میں موجود ہے۔پروفیسرمنورعباس کاکہنا ہے کہ 2018 ء سے کالج اساتذہ مشاہرے سے محروم ہیں جو محض منفی پروپیگنڈاہے۔منورعباس کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جامعہ کراچی کالج اساتذہ کو مشاہرہ دینے کے لئے تیارنہیں جو سراسرغلط ہے۔اس کے علاہ ان کے دوہرے معیار کا اندازہ ان کی اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ جامعہ کراچی کے اساتذہ یا داخلہ کمیٹی کا عملہ اگر مشاہرہ لے تومنورعباس کی نظر میں وہ غلط ہے جبکہ دوسری طرف وہ اسی بیان میں خودہی کالج کے اساتذہ کے ایک کروڑ مشاہرے کا ذکر کررہے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ شیخ الجامعہ پروفیسرڈاکٹر خالد محمود عراقی کی سپلاکراچی ریجن کے عہدیداروں سے وائس چانسلر سیکریٹریٹ جامعہ کراچی میں ملاقات ہوئی جس کے بعدشیخ الجامعہ ڈاکٹر خالد محمودعراقی کی ہدایت پر 400 سے زائد چیک جاری کئے گئے اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد اپنے چیک شعبہ امتحانات جامعہ کراچی سے وصول بھی کرچکی ہے،کالج اساتذہ کی آسانی کے پیش نظر شیخ الجامعہ ڈاکٹر خالد محمودعراقی کے خصوصی ہدایت پر کالج اساتذہ کے چیک اب شعبہ امتحانات سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔سپلاکراچی ریجن کے عہدیداروں کے ساتھ اجلاس کے بعد شیخ الجامعہ نے جامعہ کراچی کی سینٹ میں کالج پرنسپلز اور اساتذہ کی نشستوں پر انتخابات کے لئےدوبارہ کالجز کے مجازاتھارٹی کو متعدد خطوط جاری کئے جس میں کالج اساتذہ کی فہرست طلب کی گئی اور فہرست موصول ہوتے ہی شیخ الجامعہ نے سینیٹ کے انتخابات کا شیڈول جاری کیا جو خوش آئند ہے۔
علاوہ ازیں سپلا صدر کے دوہرے معیار کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ سابق وائس چانسلرزکے ادوارمیں بھی 10 برس تک ایک نجی کالج کی ڈاکٹر طیبہ مامون رکن سنڈیکیٹ رہی اوریٹائرڈ پرنسپل انیس زیدی بھی رکن سنڈیکیٹ رہے جوکہ سپلا کے سابق عہدیداربھی تھے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس وقت انہیں قواعد وضوابط یا د نہیں آئے کیونکہ وہ کالج اساتذہ تھے اور جامعہ کے ریٹائرڈ استاد کے رکن سنڈیکیٹ بننے پر انہیں صرف اس لیے پریشانی ہورہی ہے کہ وہ کالج کے بجائے مادر علمی سے تعلق رکھتی ہیں انھیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ پروفیسر نصرت ادریس کی حالیہ تقرری یونیورسٹی ایکٹ کے عین مطابق ہے اگر ایسا نہیں ہے تو ایکٹ کی کوئی ایسی شق سامنے لائی جائے جس کے تحت یہ تقرری ایکٹ کے منافی ہو
آفیسر ویلفیئر ایسوسی ایشن منور عباس کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ پہلے اپنا گھر درست کریں کیونکہ سپلا کراچی ریجن اپنے بیانیے میں پہلے ہی ببانگ دہل اس بات کی وضاحت کرچکی ہے کہ آپ کراچی ریجن کے معاملات میں مداخلت کررہے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنا گھر درست کریں پھر جامعہ کراچی اور شہر کے کالجوں کی فکر کریں۔