حسام فاروقی :
کراچی پولیس کے بعض افسران شیشہ بارز کے مالک نکلے۔ میڈیا انڈسٹری سے وابستہ افراد بھی نشے کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس سرپرستی کے باعث شیشہ مافیا نے ایک بار پھر سے مضبوط پنجے گاڑ دیے۔
مختلف ہوٹلوں سمیت گیمنگ زونز اور دیگر چھوٹی دکانوں میں شیشہ کیفے کام کر رہے ہیں۔ شیشہ استعمال کرنے میں سب سے زیادہ تعداد چھوٹی عمر کے نوجوانوں کی ہے، جس میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر شیشہ کیفے اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیز سے ملحق آبادیوں میں واقع ہیں۔ جبکہ شیشہ میں استعمال ہونے والے لوازمات صدر کی مختلف دکانوں میں بآسانی دستیاب ہیں۔ جن سے پولیس ہفتہ وار بنیاد پر رشوت وصول کرکے فروخت کی اجازت دیتی ہے۔ بعض شیشہ کیفوں کے مالکانہ حقوق کراچی پولیس کے کچھ افسران کے پاس ہیں۔ جبکہ میڈیا سے وابستہ کچھ افراد بھی اپنے ادارے کا نام استعمال کرتے ہوئے شیشہ کیفے کا کاروبار کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے، گلشن اقبال، پی ای سی ایچ ایس، کلفٹن اور ڈیفنس کے کئی ہوٹلوں اور کیفوں میں شیشہ نام کا نشہ بآسانی نوجوان نسل کو 3 ہزار روپے فی گھنٹہ کے حساب سے فراہم کیا جا رہا ہے، جس کے عادی اب ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان ہو چکے ہیں۔
سپر ہائی وے پر جن جن ہوٹلوں میں شیشہ وہاں آنے والے گاہکوں کو فراہم کیا جا رہا ہے اس کی مد میں سائٹ سپر ہائی وے، شاہ لطیف اور گڈاپ ٹاؤن سمیت معمار تھانے کی پولیس ہفتہ وار بنیادوں پر رشوت وصول کر رہی ہے، جس کے بعد ان ہوٹلوں میں گاہکوں کو شیشہ فراہم کرنے کی اجازت پولیس کی جانب سے دی گئی ہے۔
اسی طرح نیشنل ہائی وے پر قائم جن ہوٹلوں میں شیشہ فراہم کیا جا رہا ہے وہاں سے رشوت ملیر سٹی پولیس، قائد آباد پولیس، سکھن پولیس وصول کر رہی ہے۔ گلشن اقبال میں گلشن تھانہ اپنے علاقے میں چلنے والے شیشہ کیفوں سے ہفتہ وار بنیادوں پر رشوت وصول کر رہا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس کے علاقے میں فیروز آباد تھانہ اور محمودآباد تھانے کے اہلکار رشوت وصول کر رہے ہیں۔ جبکہ ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقوں میں جن جن مقامات پر شیشہ کیفے یا شیشے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے ان کی سر پرستی کلفٹن تھانہ، درخشاں تھانہ، بوٹ بیسن تھانہ، گزری تھانہ اور ڈیفنس تھانے کے اہلکار کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ جو فلیور ان شیشوں میں استعمال ہوتا ہے وہ زیادہ تر بھارت اور تھائی لینڈ سے اسمگل ہو کر پاکستان پہنچتا ہے، جس میں کئی ایسے مضر صحت کیمیکل شامل ہیں جو کہ مارفین اور ہیروئن بنانے میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں، جس سے انسان کا دماغ سن ہو جاتا ہے۔ یہ نشہ کرنے والا آہستہ آہستہ انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت شیشہ اور اس میں استعمال ہونے والے لوازمات صدر کی ایمپریس مارکیٹ میں مختلف دکانوں میں کھلے عام فروخت کئے جا رہے ہیں، جس میں ضلعی انتطامیہ سمیت پولیس کو بھی ماہانہ بنیادوں پر دکانداروں کی جانب سے رشوت دی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مضر صحت شیشے کا کاروبار شہر بھر میں دھڑلے سے جاری ہے۔ شیشے سے جڑے جو لوازمات ان دکانوں پر مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں ان میں شیشہ یعنی حقے کی جدید شکل، دھواں کھینچنے والا پائپ، انگارے بنانے والا کیمیکل، جالی، شیشے کا کیمیکل ملا پانی اور مضر صحت فلیور تمباکو شامل ہیں، جنہیں خریدنے کے لئے ان دکانوں پر شہر کے پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد جوک درجوک آتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس لت کا شکار زیادہ تر نوجوان نسل ہو رہی ہے جس میں لڑکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے ، اور یہ نوجوان یا تو کسی کالج کے طالب علم ہوتے ہیں یا پھر کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں، جو کہ اس نشے کو فیشن سمجھ کر استعمال تو کر لیتے ہیں مگر پھر آہستہ آہستہ اس کی لت میں مبتلا ہو کر اپنی صحت خراب کر لیتے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت شیشہ اور اس سے جڑے لوازمات بنا کوئی ٹیکس ادا کئے بیرون ممالک سے پاکستان لائے جا رہے ہیں اور یہ سب نان کسٹم پیڈ مال میں شمار ہوتا ہے، جس پر ادارہ کسٹمز بھی کارروائی کرنے سے گریز کرتا ہے۔ شیشہ اور اس سے جڑے دیگر لوازمات ایران سے پاکستان اسمگل کیے جا رہے ہیں، جس کے لئے ایران پاکستان بارڈر اور سمندری راستوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ تمام سامان بلوچستان پہنچایا جاتا ہے جہاں سے مختلف گاڑیوں کے ذریعے کراچی اسمگل کر دیا جاتا ہے اور کراچی میں کھلے عام فروخت ہوتا ہے۔