یہاں موجود کوئی بھی کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہہ سکتا ہے، فائل فوٹو
یہاں موجود کوئی بھی کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہہ سکتا ہے، فائل فوٹو

جسٹس مظاہر نے سپریم جوڈیشل کونسل بینچ پراعتراض واپس لے لیا

اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف آئینی درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے بینچ پر اعتراض واپس لے لیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ سماعت کر رہا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل مخدوم علی خان نے بینچ پر عائد کیا اعتراض واپس لے لیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے تو بینچ پر اعتراض کیا تھا؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ بینچ کے کسی رکن پر نہیں بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار کے قانون پر عمل نہ ہونے کا اعتراض کیا تھا۔

جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا کسی اور وکیل کو بینچ پر اعتراض ہے؟

اس موقع پر وکیل لطیف کھوسہ اور انور منصور خان نے کہا کہ مخدوم علی خان کی رائے سے متفق ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ نہیں سمجھتے کہ بینچ پر اعتراض کا معاملہ پہلے قانونی طور پر حل ہونا چاہیے؟ اگر یہ بینچ باقاعدہ طریقہ کار سے بنایا نہیں گیا تو کیا آگے چل کر یہ نکتہ نہیں آئے گا؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ مجھے بینچ پر کوئی اعتراض نہیں، میرٹ پر دلائل دینا چاہتا ہوں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کا اعتراض تو یہ بھی تھا کہ بینچ کے اراکین کم ہیں۔

اس کے ساتھ ہی مخدوم علی خان نے کیس کے میرٹ پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مفروضوں کی بنیاد پر جسٹس مظاہر کو سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس دیا۔

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ یہ طے کرنا کس کا اختیار ہے کہ شوکاز حقائق پر مبنی ہے یا مفروضوں پر؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے طے کرنا ہے کہ شوکاز حقائق پر مبنی ہے یا مفروضوں پر، جسٹس مظاہر کے خلاف شکایات بدنیتی پر مبنی ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ شکایت گزاروں کی بدنیتی کا تعین کیسے کر سکتی ہے؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس مظاہر کا کیس افتخار چوہدری اور قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنسز سے مختلف ہے، افتخار چوہدری اور قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس صدر نے بھیجے تھے، شکایت گزاروں کا جسٹس مظاہر کےخلاف ریفرنس بھیجنے کا قانونی حق نہیں بنتا، جسٹس مظاہر کے خلاف ایک شکایت گزار عدالت میں آئینی درخواست بھی لایا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ شکایت گزار کی درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراض کیا؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے ممبران پر اعتراض کیا تھا، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے تو اس میں فریق کس کس کو بنایا گیا ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کیس میں وفاق اور صدر پاکستان بار سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے، 2 کونسل ممبران نے کچھ عرصے پہلے رولز آف انکوائری کو غیر آئینی کہہ کر ترمیم کا مطالبہ کیا، آئین کے آرٹیکل 209 کا مقصد ججز کے خلاف کارروائی نہیں، انہیں تحفظ دینا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کے 2 ممبر پہلے ہی رولز کو غیر آئینی کہہ چکے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ شوکت صدیقی کیس میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے رولز کو آئینی قرار دیا، شوکت صدیقی کیس میں بطور وکیل پیش ہوا، جو درخواست کی مسترد کر دی گئی، کونسل کے رولز پر میرے نکات پہلے چیف جسٹس اور جسٹس سردار طارق نے بھی اٹھائے تھے، بینچ نے دیکھنا ہے کہ کونسل کی کارروائی آئین کے آرٹیکل 209 سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔

اس موقع پر شکایت کنندہ میاں داؤد لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہو گئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے شکایت کنندہ میاں داؤد کو بولنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ کیوں کھڑے ہیں؟ تشریف رکھیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں، اگر عدالت نے آپ کو سننا ہو گا تو بلا لیں گے، آپ نے کیس میں جسٹس مظاہر کے خلاف شکایت کنندگان کو فریق کیوں نہیں بنایا؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میرا اعتراض سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے طریقہ کار پر ہے، جسٹس مظاہر کےخلاف جوڈیشل کونسل نے غیر قانونی طریقے سے کارروائی شروع کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کی آئینی درخواست صرف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی تک محدود ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ بالکل، عدالت دیکھے کہ کیسے جسٹس مظاہر کے خلاف کارروائی چلائی جا رہی ہے۔

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر اعتراض یہ ہے کہ شکایت بدنیتی پر مبنی ہے تو یہ کونسل میں اٹھائیں گے؟

جسٹس مظاہر کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر شکایت کو کونسل درست بھی مان لے تو سیدھا نوٹس نہیں ہو سکتا، کونسل کو پہلے حقائق جاننے کے لیے انکوائری کرنا ہو گی۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ یہ ہمارے لیے بہت مشکل صورتِ حال ہے۔

جسٹس مظاہر کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ ہم سب کے لیے ایک مشکل کیس ہے کیونکہ جج سے متعلق ہے، میں نے شوکاز نوٹسز کو بھی چیلنج کیا ہے۔

جسٹس امین نے کہا کہ شوکاز نوٹس شکایات کی بنیاد پر جاری کیے تو شکایت کنندگان کو فریق بنانا ہو گا۔

جسٹس مظاہر کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں آرٹیکل 184/3 کی درخواست کونسل کے خلاف لایا ہوں، شکایت گزاروں کے خلاف نہیں، شکایت گزاروں کو فریق بناؤں تو وہ خلاف فیصلہ نہ ہونے پر 184/3 کے تحت عدالت آ جائیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کر رہے ہیں۔

جسٹس مظاہر کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں کونسل کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کر رہا ہوں، شکایات ختم کرنے کی نہیں، جج کے خلاف شکایت معلومات کے سوا کچھ نہیں ہوتی، سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے قانونی رائے کے لیے کونسل کو شکایتیں بھیجیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل خود بھی قانونی رائے دے سکتی ہے؟

جسٹس مظاہر کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ نہیں، 17 ویں ترمیم کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کا ممبر قانونی رائے دیتا ہے، رولز اور آئین کے مطابق جج کے خلاف کارروائی صدارتی ریفرنس یا کونسل ازخود کر سکتی ہے، جوڈیشل کونسل میں جج کے خلاف کارروائی کے لیے شکایت گزاروں کا کوئی تصور نہیں، کونسل ازخود کسی ذرائع سے ملنے والی معلومات پر کارروائی کر سکتی ہے۔