اسلام آباد(اُمت نیوز) اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو بچھڑے 69 برس بیت گئے۔ منٹو کے افسانے، مضامین اور خاکے اُردو ادب میں منفرد حیثیت اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
منٹو کے افسانے، مضامین اور خاکے صرف پڑھے ہی نہیں جاتے بلکہ آج بھی ان کے موضوعات کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے، ان کی زندگی پر پاکستان اور بھارت میں ان کی زندگی پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔
سعادت حسن منٹو 11مئی 1912ءکوبھارتی شہرلدھیانہ میں پیدا ہوئے،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجوایشن کے دوران کہانیاں بھی لکھتےرہے لیکن ان کی وجہ شہرت ان کے افسانے بنے۔
سعادت حسن منٹو نےتحریک آزادی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،تقسیم پاک و ہند کے دوران پیش آنے والےواقعات کو خوبصورت اندازمیں پیش کیا،ان کی ٹھنڈا گوشت، ٹوبہ ٹیک سنگھ، بو، کالی شلوار سمیت دیگر کہانیوں کا خوب چرچا رہا۔
سعادت حسن منٹونےجہاں افسانے لکھے وہیں آل انڈیا ریڈیو کیلیے شارٹ اسٹوریز بھی لکھیں، منٹو کے افسانے آج بھی ہمارے معاشرے کے تلخ حقائق کی عکاسی کرتے ہیں۔
منٹو مالی مشکلات کی وجہ سے کسمپرسی کی حالت میں 18 جنوری1955کو خالق حقیقی سے جا ملے، انہیں حکومت کی طرف سے وفات کے 57 برس بعد نشان امتیاز سے نوازا گیا۔