سجاد عباسی
بے یقینی کی دھند، ان گنت سوالات اور خدشات میں لپٹے ہوئے الیکشن 2024 کے انعقاد میں 24 گھنٹے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے مگر ہر کوئی "ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے” کی کیفیت کا شکار ہے۔
شاید 76 سالہ ملکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مملکت خداداد کے تمام اہم ادارے بار بار یہ یقین دہانی کرا رہے ہوں کہ الیکشن بروقت ہوں گے۔الیکشن کمیشن۔ نگراں حکومت۔ مسلح افواج اور سب سے بڑھ کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی یہ ضمانت دیں کہ انتخابات کا انعقاد ایک دن بھی آگے پیچھے نہیں ہوگا۔ امیدوار جلسے جلوس کر رہے ہوں۔ انتخابی مہم عروج پر ہو۔ میڈیا وار گرم ہو ۔نشانات الاٹ ہو چکے ہوں۔ بیلٹ پیپرز چھپ چکے ہوں اور ان کی ترسیل مکمل ہو چکی ہو ،یہاں تک کہ متعلقہ انتخابی حلقوں میں فورسز کی تعیناتی کا عمل بھی شروع ہو چکا ہو ۔۔مگر اس سب کے باوجود خلق خدا آنکھوں میں ان گنت سوالات لیے کہیں سرگوشیوں میں تو کہیں اشارے کنایوں میں یہ پوچھ رہی ہو کہ کیا واقعی آٹھ فروری کو الیکشن ہوں گے؟
دراصل یہ بے یقینی اور بے اعتباری اس نظام اور اس طرز حکمرانی کی دین ہے جس نے آٹھ عشروں کے دوران کبھی بند کمروں میں فیصلے کئے تو کبھی "سجی دکھا کر کھبی” مارنے کی روایت کو فروغ دیا.
چنانچہ سرکار کی جانب سے آنے والی ہر چیز کو مشتبہ سمجھنا اور اس پر سوال اٹھانا مخلوق کی عادت ثانیہ بن گئی ،چاہے وہ الیکشن کے دن کا معاملہ ہو یا رویت ہلال کا،یہاں ہر معاملہ شکوک و شبہات کی دھند میں لپٹا دکھائی دیتا ہے۔
اب تو ظاہر ہے الیکشن کے انعقاد پر کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں رہی تو آئیے "پوسٹ الیکشن سیناریو” کے حوالے سے شکوک و شبہات کا نیا فلڈ گیٹ کھولتے ہیں۔
ارد گرد دیکھیں تو ہر کوئی اپنے خیالات کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔سیاسی کارکن سے تجزیہ کار تک اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ سے پھل فروش تک، ہر شخص اپنی قوت تخیل کی پرواز کے مطابق ہونی اور انہونی ۔ممکن اور ناممکن۔ ظاہر اور پوشیدہ سے متعلق معلومات ، خدشات اور اندازوں کو سوالات کی شکل دے رہا ہے اور ان میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا نئی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا چند ماہ بعد گھر کی راہ لے گی اور کیا اس الیکشن کے نتائج کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے گا جس کے بارے میں ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ یہ 2018 کے الیکشن کا ریپلیکا ہے؟ یعنی "تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا” کے مصداق ایک جماعت کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یوں سیٹ کی گئی کہ دوسری ٹیم گراؤنڈ میں دکھائی ہی نہ دے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات سیاسی تجزیہ کار اور دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تو کر ہی رہے ہیں ،خود اس جماعت کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ ان کی چلتی پھرتی حکومت کو گرا کر ان کی قیادت پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ایوان اقتدار سے براہ راست زنداں کی راہ دکھائی گئی اور پھر ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست بدر بھی کر دیا گیا لہذاٰ اب یہ سب تام جھام اس کے ازالے اور ماضی قریب کے دکھوں کے مداوے کیلئے ہے ۔۔مگر المیہ یہ ہے کہ حال ہمیشہ ماضی پر حاوی ہو جاتا ہے اور لوگوں کی یادداشت لمحہ موجود تک محدود ہو جاتی ہے۔
سو اب تک کے دستیاب شواہد اور قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ آنے والی حکومت مسلم لیگ نون کی ہوگی ،مگر کیا نواز لیگ کو سادہ اکثریت حاصل ہو جائے گی یا اس کے قیام اور "استحکام” کا انحصار تنکا تنکا جوڑ کر بنائی گئی استحکام پارٹی پر ہوگا؟ کہا جاتا ہے کہ اگر سادہ اکثریت مل گئی تو نواز شریف وزیراعظم بنیں گے اور بصورت دیگر یہ اعزاز ایک بار پھر برادر خورد شہباز شریف کے حصے میں آئے گا جن کی 16 ماہ کی حکومت کے دور رس اثرات تا دیر زیر بحث رہیں گے۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ اقتدار کی مسند پر کون براجمان ہوگا اس حوالے سے شریف خاندان کی اندرونی کشمکش اب تک پوری طرح ختم نہیں ہوئی اگرچہ نواز شریف نے اپنی دختر نیک اختر کو عملاً اپنا سیاسی جانشین مقرر کر دیا ہے جس کا اظہار وہ انتخابی جلسوں میں انہیں اپنے بعد بلا کر عوامی سطح پر بھی کر رہے ہیں مگر ان کے لیے شاید اسلام آباد کی فضا فی الوقت سازگار نہ ہو اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے راج سنگھاسن سے آغاز کر کے وہ وفاق کے ایوان اقتدار میں پہنچیں جس طرح ان کے والد اور چچا جان نے کیا۔
اس دوران نوٹ کرنے والوں نے ایک بات تو نوٹ کر ہی لی کہ گزشتہ دو ہفتوں میں میاں شہباز شریف ایک بار پھر لائم لائٹ میں آگئے ہیں. میڈیا سے ان کا انٹرایکشن بڑھ گیا۔ باڈی لینگویج میں بلا کا اعتماد اور چہرے کی چمک لوٹ آئی ہے۔ سیاسی مبصرین اس بے خودی کو بے سبب ماننے کو تیار نہیں ہیں ،گویا کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔چند ہفتے پہلے تک خود نواز لیگ کے اندرونی حلقے انہیں 16 ماہ کے "غریب کش اقتدار” کے حوالے سے یاد کیا کرتے تھے اور پارٹی نے بھی غیر محسوس طریقے سے انہیں کوریج سے دور رکھا.دروغ بر گردن راوی اس حوالے سے میڈیا کو کہیں سے خاموش پیغام بھی ملا تھا مگر اب ماشاءاللہ وہ پورے طمطراق سے میدان عمل میں ہیں اورمیڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ متبادل وزیراعظم کے طور پر انہیں اندر سے بھی قبولیت مل گئی ہے تا ہم اس کا انحصار انتخابی نتائج پر ہوگا۔ طاقتور حلقوں کیلئے ان کی قبولیت بلکہ مقبولیت تو عالم آشکار ہے۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو میاں نواز شریف کنگ کے بجائے کنگ میکر بننا پسند کریں گے۔نواز لیگ نے اپنے انتخابی منشور میں "پاکستان کو نواز دو” کا ذومعنی نعرہ کافی سوچ بچار کے بعد دیا ہے جو عرفان صدیقی جیسے دانشور کے ذہن رسا کا کارنامہ ہے مگر کیا اس میں ترمیم کر کے نواز کو "شہباز” میں بدلا جا سکتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہلکی پھلکی انتخابی جھڑپیں محض دکھاوے کے لیے ہیں تاکہ سند رہے اور بلاول بھٹو کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے کام آئے۔اس طرح کی دوستانہ اپوزیشن کا کردار پیپلز پارٹی گزشتہ نواز لیگی حکومت میں بھی نبھا چکی ہے۔اس غیر اعلانیہ انڈرسٹینڈنگ ہی کا نتیجہ ہے کہ انتخابی مہم کے آغاز پر سندھ میں نواز لیگ نے جو سرگرمی دکھائی تھی وہ آہستہ آہستہ ماند پڑ گئی۔سندھ پر پیپلز پارٹی کا اقتدار برقرار رہنے کی واضح علامات تو موجود ہیں ہی، بلوچستان میں بھی اس کے لیے اب راستہ ہموار ہو چکا ہے۔کے پی میں تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے سربراہ پرویز خٹک وزیراعلی بننے کے لیے بے تاب ہیں مگر کس برتنے پر، یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ایک خیال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی یا اس کے حمایت یافتہ امیدواروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی تو صوبے میں مولانا فضل الرحمن اور پرویز خٹک کی اتحادی حکومت تشکیل پا سکتی ہے، بصورت دیگر مولانا کو ماضی کی طرح وفاق اور بلوچستان میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ یہ آنے والے دنوں کاایک ممکنہ سیاسی منظر نامہ ہے مگر اسی صورت میں کہ سب کچھ خیر خیریت سے ہو جائے مگر کیا کریں کہ اندیشہ ہائے دور دراز وطن عزیز کے باشندوں کو ایک پل چین نہیں لینے دیتے۔