عبداللہ ہاشمی :
کراچی سے جماعت اسلامی کو متوقع طور پر ملنے والی 6 صوبائی سیٹوں کا حصول کھٹائی میں پڑگیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم کی تلخ ترین پریس کانفرنس کو قرار دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ انہوں نے پریس کانفرنس کرنے میں جلد بازی کی۔
واضح رہے کہ ’’امت‘‘ میں دو دن پہلے انتہائی باوثوق ذرائع کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ ری کائونٹنگ کے عمل میں کراچی سے جماعت اسلامی کو 6 سیٹیں ملنے کی قوی توقع ہے۔ کیونکہ متعلقہ حلقوں کے فارم 45 میں جماعت اسلامی کے امیدوار واضح طور پر جیت رہے تھے۔ تاہم فارم 47 میں یہ برتری ختم کردی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس زیادتی کے ازالے کی یقین دہانی کرادی گئی تھی اور یہ قوی امکان تھا کہ ری کائونٹنگ کے عمل میں متعلقہ حلقوں کی 6 سیٹیں جماعت اسلامی کو مل جائیں گی۔ ایسے میں جب یہ عمل بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے کہ اچانک حافظ نعیم الرحمان کی دھواں دار پریس کانفرنس ہوئی۔ جس سے یہ ساری پیش رفت رک گئی۔
معلوم ہوا کہ اتوار اور پیر کے درمیانی شب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کو بتایا گیا کہ آپ فارم 47 میں تو جیتے ہوئے ہیں لیکن فارم 45 کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار سے 2 ہزار ووٹوں سے ہارے ہوئے ہیں۔ جس پر پیر کے روز ایک سخت پریس کانفرنس کے ذریعے انہوں نے وہ سیٹ چھوڑدی۔
ذرائع نے بتایا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں جیتی ہوئی سیٹوں میں لیاری سے پی ایس 106 پر امیدوار سید عبدالرشید فارم 45 پر کامیاب ہیں اور فارم 47 پر جتوائے گئے امیدوار سے ان کے ووٹ سات سو سے زائد ہیں۔ اس طرح پی ایس 104 سے امیدوار جنید مکاتی بھی فارم 45 میں جیتے ہوئے ہیں۔ اور فارم 47 میں جتوائے گئے مدمقابل امیدوار سے 25 ہزار 644 ووٹوں کی برتری ہے۔
اسی طرح پی ایس 128 سے جماعت اسلامی کے امیدوار سید وجیہہ حسن نے فارم 45 کے مطابق 22 ہزار 8 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ جبکہ وسطی ہی میں دوسری نشست پی ایس 123 سے امیدوار محمد اکبر( قریشی) نے 13 ہزار 181 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ وسطی (v) سے جماعت اسلامی کے امیدوار نصرت اللہ نے 21 ہزار 184، پی ایس 124 سے امیدوار محمد احمد قاری نے 18 ہزار 472 ووٹ حاصل کئے ہیں۔
مذکورہ تمام سیٹوں پر تیسرے اور کہیں چوتھے نمبر کے امیدوار کو کامیابی کا نوٹیفکیشن تھمایا گیا تو جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں میں اس معاملے پر بات کی۔ جس پر انہیں یقین دہانی کرادی گئی تھی کہ منگل کی شام تک صوبائی الیکشن کمیشن سے وہاں جمع کرائی گئی نتائج کی درستگی کی درخواستوں کی جانچ پڑتال کے بعد ریلیف فراہم کردیا جائے گا اور جماعت اسلامی کے جیتی ہوئی سیٹیں انہیں واپس کردی جائیں گی۔
ذرائع نے بتایا کہ حافظ نعیم الرحمان نے پریس کانفرنس میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا اور اپنے دیگر امیدواروں کا کیس خراب کردیا۔ جنہیں منگل کی شام تک سیٹیں مل جانا تھیں۔ پیر کے روز ہونے والی پریس کانفرنس میں امیر جماعت نے اپنے امیدواروں کے حوالے سے کم باتیں کیں اور ان کا سارا زور پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امیر جماعت اسلامی یہ پریس کانفرنس دو روز بعد بھی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے صبر سے کام نہ لیتے ہوئے دیگر جیتے ہوئے امیدواروں کے لئے بھی مسائل کھڑے کردیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کا الیکشن سیل بھی بروقت الیکشن کمیشن میں نتائج کی درستگی کی درخواست جمع کرانے میں ناکام رہا۔
ایک امیدوار کے بقول انہیں کراچی سے صوبائی الیکشن کمیشن میں درخواست جمع کرانے کی کوئی ہدایت نہیں ملی تاہم ایک دوست کے اصرار پر درخواست جمع کرادی تھی۔ اگر وہ درخواست جمع نہ کرائی ہوتی تو ہمارے پاس الیکشن کمیشن جانے کے راستے بھی بند ہوجاتے۔
ذرائع نے بتایا کہ جماعت اسلامی کے مذکورہ 16 اراکین سمیت پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے عدالت عالیہ سندھ سے 47 آئینی درخواستوں کے ذریعے انصاف کے لئے رجوع کیا۔ مذکورہ درخواست میں لیاری سے پی پی پی پی کے امیدوار عثمان ہنگورو کی درخواست بھی شامل ہے۔
منگل کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عقیل احمد عباسی کی سر براہی میں قائم دورکنی بنچ کے روبرو کراچی کے 47 قومی و صوبائی حلقوں کے انتخابی نتائج کے خلاف جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار و دیگر کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے تمام درخواستیں مسترد کردی ہیں اور الیکشن نتائج کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ اس موقع پر درخواست گزار و پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ رات گئے قومی اسمبلی کی نشست این اے 238 سے ایم کیو ایم امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ رات گئے کیسے نوٹیفکیشن جاری ہوگیا جب درخواستیں یہاں زیرالتوا تھیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے لائ افسر کا کہنا تھا کہ ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے وہ رزلٹ تیار تھا، الیکشن کمیشن نے کمپلینٹ سیل قائم کردیا ہے، ہمارے پاس شکایات موصول ہورہی ہیں۔
سماعت کے موقع پر چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن درخواستوں پر قانون کے مطابق کارروائی کا پابند ہے۔ امیدواروں کو الیکشن کمیشن کے پاس جانا چاہئے۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو کامیابیوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روکا جائے، ہمیں معلوم ہے الیکشن کمیشن ہماری درخواستیں بے شک 2 دن میں بھی نمٹا دے مگر کیا فیصلہ کرے گا؟ وہ سب کے سامنے ہے۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن حکام کا کہنا تھا کہ سیکشن 9 میں 60 دنوں کا وقت دیا گیا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولنگ کے بعد نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے کتنے دن کا وقت ہوتا ہے۔ جس پر درخواست گزار کے وکلا کا کہنا تھا کہ پولنگ کے بعد نوٹیفکیشن جاری کرنے کا 14 دن کا وقت ہوتا ہے۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل جبران ناصر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ریٹرننگ افسر کی جانب سے کارروائی مکمل کرنے کے بعد 14 دن ہوتے ہیں، آر او پابند ہے امیدواروں کے سامنے نتائج تیار کرے۔
اس موقع پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق درخواست گزاروں کو پہلے کمیشن سے رجوع کرنا چاہئے۔ دوران سماعت درخواست کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہمیں اعتراض نہیں ہے عدالت کہے گی تو کمیشن سے بھی رجوع کریں گے مگر نوٹیفکیشن جاری کرنے سے الیکشن کمیشن کو روکا جائے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جس نے جو کرنا تھا کردیا۔ اب ان باتوں کا فائدہ نہیں اب جو آپشن ہے وہ استعمال کریں۔ الیکشن کمیشن کے پاس شکایات سننے اور فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ دوران سماعت بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی سمیت چھ مقدمات ہیں جس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے متنازع فیصلوں کے خلاف حکم جاری کیا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہاں تو صورت حال مختلف ہے نتائج جاری ہوچکے ہیں فارم 47 جاری ہوچکا ہے۔ دوران سماعت عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ بیان دے دیں کہ درخواستوں کو مقررہ مدت میں نمٹا دیں گے۔
دوران سماعت چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے استفسار کیا کہ قانون کیا کہتا ہے ان شکایات پر فیصلہ دینے کے لئے کتنا وقت ہوتا ہے؟ آپ کے پاس جو درخواستیں آگئی ہیں انہیں سنتے کیوں نہیں؟ جس پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن خود بھی حکم امتناعی دینے کا اختیار رکھتا ہے، کئی کیسز میں اسٹے بھی دیا ہے۔
دوران سماعت بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے واضح ہے آرٹیکل 199 میں ہائی کورٹ فیصلہ کرسکتی ہے۔ جب الیکشن کمیشن کے پا س نوٹیفکیشن کے لیے 14 دن ہیں تو جلد بازی میں کیوں نوٹیفکیشن جاری ہورہے ہیں؟ سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو سارا قانون معلوم ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی گڈ ول ہونی چاہئے۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست گزاروں کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو 22 فروری تک درخواستوں پر فیصلہ کرنے کا حکم دیدیا۔
علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ نے کراچی کے 40 سے زائد قومی و صوبائی حلقوں کے نتائج کے خلاف درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ تحریری فیصلے میں کہاگیاہے کہ الیکشن کمیشن تمام فریقین کی شکایت سن کر قانون کے مطابق فیصلہ کرے، الیکشن کمیشن تمام شکایتیں سن کر 22 فروری سے پہلے فیصلہ کرے۔ الیکشن کمیشن درخواست گزاروں کے فارم 45 یا 47 کا ریکارڈ سے جائزہ لے۔ اگر کوئی بے ضابطگی پائی جائے تو الیکشن کمیشن اسے دور کرے ۔
الیکشن کمیشن درخواستوں پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے اس کے بعد متاثرہ فریق چاہے تو قانون کے مطابق متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔ عدالت نے فیصلے میں کہاکہ تمام درخواست گزاروں نے ایک جیسے خدشات کا اظہار کیا ہے ،درخواست گزاروں کے مطابق ریٹرننگ افسران نے کنسولیٹیڈ فارم 47 جاری کرتے ہوئے امیدواروں کی غیر موجودگی میں بنایا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے جواب میں کہاکہ درخواست گزار الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 106 سے جماعت اسلامی کے امیدوار سید عبدالرشید نے آزاد امیدوار کے خلاف درخواست دائر کی۔ عبد الرشید نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ تمام پولنگ اسٹیشنز کے فارم 45 موجود ہیں، پریزائیڈنگ افسران کے دستخط بھی ہیں، ہمارے ایجنٹس کو کمرے سے نکال کر فارم 47 تیار کیا گیا تھا، فارم 45 اور 47 کے اعداد ووٹوں میں تضاد ہے۔
اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے پی ایس 95 سے امیدوار راجہ اظہر نے بھی سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ راجہ اظہر نے درخواست میں موقف اپنایا کہ فاروق اعوان سابق ایس ایس پی ہیں، اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اثر انداز ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 250 سے آزاد امیدوار ریاض حیدر نے ایم کیو ایم کے امیدوار فرحان چشتی کی کامیابی کے خلاف بھی درخواست دائر کی۔