سجاد عباسی
طویل کشمکش کے بعد 6 جماعتی اتحاد نے "پی ڈی ایم ٹو” حکومت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے جس میں دو مرکزی کھلاڑی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ہوں گے۔
اب تک سامنے آنے والے فارمولے کے تحت آصف علی زرداری صدر مملکت،شہباز شریف وزیراعظم اور مریم نواز وزیراعلی پنجاب ہوں گی۔
مسلم لیگ نون کی جانب سے شہباز شریف کی بطور وزیراعظم نامزدگی تو اپنی جگہ خبر ہے ہی ،مگر اس سے بڑی خبر یہ ہے کہ چوتھی مرتبہ اپنے سیاسی کیریئر کی پیک پر پہنچ کر ایک لحاظ سے وزارت عظمیٰ کو چھو کر واپس آنے والے لیگی قائد میاں نواز شریف مستقبل قریب کے سیاسی منظر نامے میں وہ کلیدی کردار ادا کرتے نظر نہیں آرہے جس کی منصوبہ بندی انہوں نے کر رکھی تھی یا ان کے ساتھی اور پارٹی کارکنوں کی اکثریت ان سے توقع کر رہی تھی۔
اس مایوسی کی ایک جھلک اپ کو مسلم لیگ نون کے دو رہنماؤں کی ان ٹویٹ میں بھی نظر آئے گی۔۔ شیخوپورہ سے شکست کھانے والے میاں جاوید لطیف نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ” ہم شرمندہ ہیں, ہم آپ کے بیانیے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے۔اپ کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کا بدلہ نہیں چکا سکے۔جب یہ موقع آیا تو ہم نے ضائع کر دیا۔۔
اسی طرح جج ارشد محمود کے کیس میں مرکزی کردار ادا کرنے والے لیگی قائد کے وفادار ساتھی ناصر بٹ نے لکھا۔۔آج میری انکھوں میں انسو ہیں ہم نواز شریف سے وفا نہیں کر سکے۔
اسے حالات کا جبر کہیے یا سوئے اتفاق کہ نواز شریف کے علاوہ بھی مسلم لیگ نون کے ایسے چنیدہ رہنما الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئے جو لیگی قائد کے معتمد رفقاء میں شمار ہوتے تھے۔۔ ان میں رانا ثنا اللہ۔ خواجہ سعد رفیق۔خرم دستگیر۔ میاں جاوید لطیف اور کئی دیگر شامل ہیں جو ایک لحاظ سے انتخابی میدان میں سیاسی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔
اب عالم یہ ہے کہ اپنی جماعت کی حکومت آنے کے باوجود مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی اکثریت اس صورت حال پر دل شکستہ اور مایوس نظر آتی ہے کیونکہ نواز لیگ کی پوری انتخابی مہم کی بنیاد میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کے ہدف پر رکھی گئی تھی۔۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے منشور کا نعرہ "پاکستان کو نواز دو” رکھا گیا، یعنی نواز شریف کی سیاست اور اقتدار کا احیاء ۔۔مگر کسے معلوم تھا کہ قصر سلطانی کے گنبد شہباز کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سننے کو بے تاب ہیں۔۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ملک کے تمام بڑے اخبارات میں وزیراعظم نواز شریف کے عنوان سے اشتہار کے نام پر شہ سرخی چھاپی گئی جس کا مقصد ایک طرف عوام کو تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ پیغام دینا تھا کہ پارٹی کی جانب سے اگر وزیراعظم کے طور پر کوئی شخصیت اگے آ سکتی ہے تو وہ نواز شریف ہیں۔۔ مگر یہ خواب شرمندہ تعمیر نہ ہو سکا۔۔اس دوران یہ اطلاع بھی سامنے آئی کہ اگر نواز لیگ کو الیکشن میں سادہ اکثریت مل جاتی ہے تو نواز شریف وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔۔ اس کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو وزارت عظمیٰ کا تاج شہباز شریف کے سر سجے گا کیونکہ نواز شریف کسی ایسی حکومت کے وزیراعظم نہیں بننا چاہتے جس میں دوسری پارٹیوں پر انحصار کرنا پڑے۔
دوسری طرف مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے طویل غوروخوض کے بعد ایک "اسمارٹ موو” کھیلی ہے ،جس کے تحت انہوں نے مسلم لیگ نون کی مجوزہ حکومت کا حصہ بننے سے معذرت کر لی ہے تاہم صدر مملکت اور چاروں صوبوں میں گورنرشپ سمیت کئی بڑے آئینی عہدے مانگ لیے ہیں.اس طرح "رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی” کے مصداق پیپلز پارٹی عملاً حکومت میں نہ صرف شامل ہوگی بلکہ ممکنہ طور پر صدر۔ چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سمیت بڑے آئینی عہدوں کے ساتھ حکومت کے سر پر ایک مانیٹر یا نگران کے طور پر اس سٹیٹس کو بھی انجوائے کرے گی جبکہ اس کے علاوہ ایک غیر اعلانیہ اپوزیشن کا درجہ بھی پیپلز پارٹی کو حاصل ہوگا اور وہ حکومت کے مشکل اور متنازعہ فیصلوں میں حصہ دار بننے کے بجائے اس کی گرفت کرکے عوام میں سرخرو بھی ہو سکے گی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتی تو نمبر گیم کے لحاظ سے بلاول اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل نہیں کر سکتے تھے کیونکہ آزادارکان کا گروپ نمبر گیم کے اعتبار سے بڑا ہےجو آگے چل کر کسی جماعت کا حصہ بن سکتا ہے۔
فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے کہ پیپلز پارٹی وزارتیں نہ لینے کے فیصلے پر قائم رہے گی یا اس "چارٹر آف ڈیمانڈ” کا بنیادی مقصد منت سماجت کرانے کے بعد وفاقی حکومت میں مرضی کی وزارتیں حاصل کرنا بھی ہے۔آگے چل کر شراکت اقتدار کی صورت گری کیا ہوتی ہے ،یہ تو چند روز میں واضح ہو جائے گا تاہم اب تک کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ فروری 2024 کے الیکشن میں اگر کسی جماعت کو سب سے زیادہ فوائد سمیٹنے کا موقع ملا ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے اور اس لحاظ سے "ایک زرداری سب پر بھاری” کا نعرہ ایک بار پھر عملی تعبیر پا چکا ہے،یعنی ایک طرف سندھ میں بلا شرکت غیرے اقتدار اس کے پاس ہوگا، بلوچستان میں ممکنہ طور پر وزارت اعلیٰ کے ساتھ مخلوط حکومت کے اہم عہدے پیپلز پارٹی کے قبضے میں رہیں گے اور چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی گورنر کا عہدہ بھی مانگ رہی ہےجبکہ وفاق میں صدارت کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینٹ اور اسپیکر جیسے اہم ترین عہدے بھی اس کے پاس رہیں گے۔
دوسری طرف مسلم لیگ نون جو الیکشن سے پہلے کے 16 ماہ کے اقتدار میں اپنا سیاسی کیپیٹل قربان کر چکی تھی،کہ یہ دور مہنگائی اور افراط زر کے لحاظ سے عوام کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔لیگی قیادت کا خیال تھا کہ اس کے عوض لیول پلیئنگ فیلڈ کے ساتھ عنان اقتدار پورے اختیار کے ساتھ اس کے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا۔۔بقول فیض
مگر یہ ہو نہ سکا اور "پاکستان کو نواز دو” اور "وزیراعظم نواز شریف” جیسے پیشگی اعلانات دھرے رہ گئے۔
اگرچہ نواز شریف کی واپسی۔ مقدمات کے خاتمے اور یکطرفہ انتخابی مہم کی صورت میں نواز لیگ کو بڑی حد تک سہولت کاری فراہم کی گئی مگر آٹھ فروری کے الیکشن نے کھیل پلٹ دیا اور نواز لیگ کو کردہ اور ناکردہ کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔نتیجتا” دو تہائی یا سادہ اکثریت کا خواب دیکھنے والی لیگی قیادت مخلوط حکومت کے لیے کئی چھوٹے بڑے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور ہو گئی۔ پےدر پےملاقاتوں اور رابطوں کے بعد پیپلز پارٹی نے "ازراہ کرم” اسے وفاق میں تعاون فراہم کرنے پر آمادگی تو ظاہر کر دی مگر ساتھ ساتھ خورشید شاہ جیسے سینیئر رہنما کے ذریعے یہ پیغام بھی دے دیا کہ بڑے میاں صاحب وزارت عظمیٰ کی طرف جانے کا نہ سوچیں۔ نواز لیگ نے بھی اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے وزارت عظمی کے امیدوار نواز شریف ہی ہیں مگر چند گھنٹے بعد موقف میں تبدیلی لا کر شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کر دیا گیا۔
مبصرین کے مطابق اگر پیپلز پارٹی اپنے بیان کردہ فارمولے کے تحت وزارتیں قبول نہیں کرتی تو آنے والی حکومت ماضی قریب کی پی ڈی ایم سرکار کے مقابلے میں ایک کمزور حکومت ہوگی جسے معیشت کی بحالی سمیت کئی مشکل اور چیلنجنگ فیصلوں کا بوجھ تنہا اٹھانا ہو گا جبکہ اسے اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ اصل حریف پی ٹی آئی کی سخت ترین اپوزیشن اور مزاحمت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ایسے میں اگر دیکھا جائے تو راج سنگھاسن کی طرف بڑھتی نواز لیگ شاید پہلی بار ادھورے اقتدار کے "گناہ بے لذت” سے ہم کنار ہونے جا رہی ہے تاہم اس کے لیے ایک خوش کن پہلو سب سے بڑے صوبے پنجاب کا اقتدار حاصل کرنا ہے جہاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پہلی جست میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوں گی اور اپنے والد اور چچا کی تقلید میں ان کی اگلی منزل وفاقی دارالحکومت ہو سکتا ہے مگر ان تمام خبروں کے بیچ میں ایک بڑی خبر بڑا سوال بن کر سامنے آرہی ہے کہ کیا مسلم لیگ نون کے قائد کی طویل ،پر خطر اور پیچ در پیچ سیاسی جد وجہد کا حاصل صاحبزادی کیلئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا حصول ہی تھا جو انہیں اپنے سیاسی کیریئر کے ابتدائی برسوں میں مل گئی تھی۔ اگر ایسا نہیں اور یقیناً ایسا نہیں ہے ۔۔
تو کیا میاں نواز شریف کا سیاسی مستقبل اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔۔ملک کے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان نے اپنی سیاسی اننگ مکمل کر لی ہے؟ اس طرح کے کئی سوال تشنہ جواب ہیں اور شاید مستقبل قریب میں ان کے تسلی بخش جواب مل جائیں۔
فی الوقت ہم مریم نواز کے اس بیان سے اتفاق کر لیتے ہیں کہ نواز شریف سیاست سے کنارہ کش نہیں ہو رہے بلکہ وہ اگلے پانچ برس وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومتوں کی سرپرستی کریں گے۔