سید حسن شاہ:
سانحہ نو مئی میں ملوث پی ٹی آئی کے 36 سے زائد امیدواروں نے عدالتوں سے ضمانت حاصل کرکے الیکشن میں حصہ لیا۔ تاہم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں سمیت دیگر ماتحت عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات کے چالان اور ٹرائل شروع ہونا باقی ہیں۔ انصاف لائرز فورم کے صدر ظہور محسود ایڈووکیٹ کے بقول بیشتر امیدواروں کو سب سے زیادہ ووٹ لینے کے باوجود فارم 47 میں ناکام قرار دیا گیا ہے۔ جس پر الیکشن کمیشن کو درخواستیں دی ہیں۔ اگر امیدواروں کو فارم 45 میں لئے جانے والے ووٹ کی بنیاد پر کامیاب قرار دیا جاتا ہے تو مقدمات کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے 36 سے زائد امیدوار دہشت گردی کے مقدمات میں نامزد ہونے کے باوجود عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر کھڑے ہوئے۔ ان امیدواروں میں میں این اے 230 سے مسرور سیال، این اے 232 سے علیم عادل شیخ، این اے 234 سے فہیم خان، این اے 235 سے سیف الرحمن، این اے 236 سے عالمگیر خان، این اے 238 سے حلیم عادل شیخ، این اے 239 سے یاسر بلوچ، این اے 241 سے خرم شیر زمان، این اے 242 سے دوا خان، این اے 244 سے آفتاب جہانگیر، این اے 245 سے عطاء اللہ، این اے 248 سے ارسلان خالد، پی ایس 116 سے رابستان خان، پی ایس 85 سے مہوش راؤ، پی ایس 88 سے اعجاز سواتی، پی ایس 91 سے عابد جیلانی، پی ایس 95 سے راجا اظہر، پی ایس 97 سے ریحان سومرو، پی ایس 104 سے امجد، پی ایس 105 سے حنیف سواتی، پی ایس 108 سے مراد شیخ، پی ایس 110 سے ریحان بندوکڑا، پی ایس 111 سے امجد آفریدی، پی ایس 112 سے سربلند خان، پی ایس 113 سے غلام قادر، پی ایس 114 سے شبیر قریشی، پی ایس 115 سے شاہنواز جدون، پی ایس 119 سے سعید آفریدی، پی ایس 121 سے ڈاکٹر شکیل، پی ایس 125 سے فوزیہ صدیقی، پی ایس 127 سے عرفان محبوب جیلانی، پی ایس 128 سے خرم سعید، پی ایس 129 سے سیف باری اور پی ایس 130 سے فیصل علی سمیت دیگر امیدوار شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے ان امیدواروں کے خلاف مختلف تھانوں میں 21 سے زائد مقدمات درج ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے ان امیدواروں نے عدالتوں سے ضمانت حاصل کیں۔ تاہم ان کے خلاف مقدمات انسداد دہشت گردی سمیت ماتحت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ بیشتر مقدمات میں ابھی پولیس کی جانب سے حتمی چالان جمع کرانا باقی ہے۔ پولیس چالان آنے کے بعد مذکورہ ملزمان پر فرد جرم عائد کی جائے گی اور پھر گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے۔ مذکورہ عمل مکمل ہونے کے بعد وکلائے طرفین کی جانب سے حتمی دلائل دیئے جائیں گے اور اس کے بعد ہی مقدمات کے فیصلے آنے کا امکان ہے۔
’’امت‘‘ نے ان مقدمات کے حوالے سے انصاف لائرز فورم کے صدر ظہور محسود ایڈووکیٹ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تقریبا تمام تمام امیدواروں اور کارکنان کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں۔ پولیس کی جانب سے ان پر محض الزامات عائد کیے گئے جن کو ابھی عدالتوں میں ثابت کرنے ہیں۔ ان الزامات کے پولیس کے پاس ٹھوس شواہد نہیں۔ کیونکہ سیاسی مقدمات بنائے گئے ہیں۔ میں خود بھی قومی اسمبلی کی نشست کا امیدوار ہوں اور فارم 45 کے مطابق میرے حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔ مگر فارم 47 میں ہمارے ووٹ کم ظاہر کیے گئے۔ ہمارے دیگر امیدواروں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو اگر الیکشن میں کامیاب قرار دیا جاتا بھی ہے تو ان پر مقدمات ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔