کراچی (پ ر) کونسل آف پاکستان نیوزپیپرایڈیٹرز(سی پی این ای) کی سندھ کمیٹی کے اجلاس میں میڈیا کو درپیش مسائل کا بغور جائزہ لیا گیااور حالیہ نگران دور حکومت میں میڈیا پر عائد کڑی سنسر شپ کی مذمت کی گئی اور اسے مارشل لاء ادوار سے بھی سخت قرار دیا گیا۔ اجلاس سے خطا ب کرتے ہوئے چیئرمین سندھ کمیٹی عامر محمود نے کہا کہ عام انتخابات کے دوران انٹرنیٹ کی بندش دراصل صحافیوں کو آزادانہ رپورٹنگ سے روکنے کا حربہ تھا۔اسی طرح انٹرنیٹ اور ٹوئیٹر کی بندش بھی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش ہے اشتہارات کو اخبارات و جرائد کی پالیسیز کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرنا آزادی صحافت اور آزادی رائے پر قدغن کے مترادف ہے۔آج بھی صحافیوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اور خواتین صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا ٹرولنگ کی جارہی ہے،بلوچستان میں صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمداریوں سے روکنے کے لئے ان کے خلاف ایف ائی درج کی گئیں۔ جان محمد مہر کے قاتل اج تک گرفتار نہیں ہو سکے جو قابل مذمت ہے۔انہوں نے کہا کہ صدر ارشاد عارف کی منظوری کے بعد سی پی این ای، ایمنڈ کی کوششوں سے تمام پی ایف یو جیز، پریس کلبز اور رپورٹرفار پارلیمنٹ کا ایک اجلاس اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں منعقد ہوا جس میں کمیشن فار فری میڈیا بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ نگران حکومت نے سنسر شپ میں ماضی کی تمام حکومتوں کا پیچھے چھوڑ دیا اورصحافیوں سے عوام کو اطلاعات کی فراہمی کا حق چھین لیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں آزادی صحافت کے لیے سرگرم دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر اخبارات و جرائد اور آزادی صحافت کو درپیش مسائل پر کام کرنا ہو گا اور اس حوالے سے ہم میڈیا کے ایشوز عوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر وسیع پیمانے پر پاکستان میڈیا فیسٹیول کے انعقاد پر بھی غور کررہے ہیں۔ سیکریٹری جنرل سی پی این ای اعجاز الحق نے کہا کہ سینٹرل میڈیا لسٹ سے نکالے گئے سی پی این ای اراکین کی بحالی کے لیے کام جاری ہے، نئی حکومت کی تشکیل کے بعد اس سلسلے میں زیادہ تیزی سے کام کیا جائے گا۔ انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ سرکاری اشتہارات کی مد میں اخبارات و جرائد کے واجبات کی ریکوری کے لیے دیگر تنظیموں سے مل کر کام کررہے ہیں۔ سندھ انفارمیشن کو 75 کروڑ فنڈز موصول ہوئے لیں جن میں سے 9 کروڑ روپے پرنٹ میڈیا کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں نگران وزیر اعلی سندھ اور وزیر اطلاعات سے دو،دو میٹنگز کیں،ان ملاقاتوں کے دوران نگران وزیراطلاعات سندھ احمد شاہ اورسیکریٹری اطلاعات سندھ نے یقین دلایا کہ واجبات کی ادائیگیاں جلد ہوجائیں گی لیکن اس کے باوجود پرنٹ میڈیا کے واجبات پوری طرح ادا نہیں کیے گئے ۔ جس سے اخبارات کی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آزادی صحافت کے مسائل کے حل کے لیے متحد جدوجہد ضروری ہے اور اس سلسلے میں کامن کوڈ آف کنڈکٹ کو سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں زیر غور لائیں گے۔ اشتہاراتی ایجنسی میڈاس سے ریکوری کے سلسلے میں میں بھی متاثر رکن اخبارات و جرائد سے کوائف اور دستاویزات طلب کی ہیں تاکہ ایک موثر لائحہ عمل کے ساتھ مسئلہ حل کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ پرنٹ میڈیا کو مستحکم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع کے استعمال پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اخبارات و جرائد اپنی ویب سائٹس سمیت ڈیجیٹل میڈیا پر بھرپور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ممبران کے لیے ٹریننگ پروگرام اور ورکشاپس منعقد کروائی جائیں گی۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت کے آخری دوایام میں اخبارات کے اشتہارات کے نرخ میں 35 فیصد اضافہ کی منظوری دی تھی لیکن بدقسمتی سے عبوری حکومت کے دوران بارہا مطالبہ کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ امید ہے کہ دوبارہ اقتدا ر میں آکر ن لیگ کی حکومت پر اپنے ادھورے وعدے پر عملی اقدامات کرے گی۔ سی پی این ای نے وفاقی حکومت پرووینشل میڈیا لسٹ بنانے کی بھی تجویز دی تھی لیکن اختیارات میں کمی کے پیش نظر انہوں نے اس معاملہ پر دلچسپی نہیں لی ۔ صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں دلچسپی رکھتی ہیں اورمستقبل میں ان سے مل کرکام کیا جائے گا۔ سینئر نائب صدر انورساجدی نے کہا کہ میڈیا کو آج مارشل لاء ادوار سے بھی سخت حالات کا سامنا ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے سی پی این ای کو ٹھوس اور جامع اقدامات کرنا ہوں گے۔انہوں نے ہاکرز کی تعداد میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس صورت حال میں اخبارات کی تقسیم کے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ جس کے لئے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں پرنٹ میڈیا کے لئے اشتہارات کے کوانٹم اور غیر منصفانہ تقسیم پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ اجلاس میں فنانس سیکریٹری غلام نبی چانڈیو، جوائنٹ سیکریٹری مقصود یوسفی سمیت سینئررکن ڈاکٹر جبار خٹک، نصرت مرزا، قاضی سجاد، بشیر میمن، منزہ سہام،شیر محمد کھاوڑ، محمود عالم خالد، سید حسن عباس، علی حمزہ افغان، سید مدثر، مدثر عالم، عبدالسمیع منگریو، شاہد ساٹی، علی بن یونس، سلمان قریشی، عبدالرحمن،عمران شہزاد، عاطف صادق شیخ،عاطف عزیز، ذیشان حسین، ہارون الرشید اور عمران کورائی بھی موجود تھے۔