فائل فوٹو
 نصیرات- البوریج اور خان یونس کیمپ پر فضائی حملے کیے گئے، فائل فوٹو

بھوک سے نڈھال فلسطینیوں کا قتل عام

شایان احمد :
غزہ جنگ کے 146 ویں روز اسرائیل نے مزید 134 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ خوراک کے شدید بحران سے دوچار رفح میں امداد کے منتظر افراد پر قیامت ڈھا دی گئی۔

صہیونی فوج نے بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر براہ براست فائرنگ کر کے 104 افراد کو شہید کر دیا۔ جبکہ 760 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ امریکی جریدے سی بی ایس کے مطابق اسرائیل نے رفح میں پُرہجوم مقام پر فضائی حملہ بھی کیا۔ جہاں سینکڑوں افراد امدادی ٹرکوں کے گرد موجود تھے۔

الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے الراشد اسٹریٹ میں اس وقت فائرنگ شروع کی جب فلسطینیوں میں غذائی امداد تقسیم کی جا رہی تھی۔ یہ جنوبی غزہ کا ایک اہم راؤنڈ اباؤٹ بھی کہلاتا ہے۔ اسرائیلی فوج نے واقعے پر روایتی سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصر کے راستے رفح میں داخل ہونے والے ٹرکوں کے قافلے پر اہلِ غزہ پل پڑے تھے۔ جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے فائرنگ کا سہارا لیا۔

اسرائیلی فوج کے اس بیان میں جانی نقصان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ جبکہ عالمی میڈیا رپورٹس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ فائرنگ اور فضائی حملے کے اس واقعے میں شہادتوں کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ شہید ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل نے غزہ کے تباہ حال نصیرات کیمپ، البوریج کیمپ اور خان یونس کیمپ میں فضائی حملے کیے۔ جس میں کم از کم 30 شہادتوں کی اطلاعات ہیں۔ یوں ایک دن میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں میں مزید 134 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ جبکہ 8 اکتوبر سے اب تک صہیونی جارحیت میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 30 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ جکہ 60 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔

مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں میں 400 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ فلسطینی ریلیف سوسائٹی کے ڈائریکٹر بسام زقوب نے کہا ہے کہ اسرائیل امداد کے منتظر شہریوں پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔ اس صورتحال کا اہلِ غزہ کو ہر روز سامنا ہے۔ سانحہ الراشد اسٹیریٹ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تاکہ حماس پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ اسرائیل یہ بھی جانتا ہے کہ اتنے بڑے قتل عام میں غزہ کا تباہ شدہ صحت کا نظام لوگوں کی طبی امداد کیلئے معاون نہیں ہوسکتا۔ یہ سب کچھ دانستہ طور پر ہو رہا ہے۔ حالانکہ عام شہریوں کو تو صرف اپنے بچوں کیلئے کھانا چاہیے اور انہیں اس کی یہ قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔

مصر اور اردن نے بھی اسرائیل کارروائی کی سخت مذمت کی ہے جبکہ امریکا کا کہنا ہے کہ وہ حملے کا نشانہ بنائے گئے مقام کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد حماس کی جانب سے جنگ بندی مذاکرات ختم کرنے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان پیرس میں جنگ بندی مذاکرات ہوئے ہیں، جس میں 6 ہفتوں کی جنگ بندی کے جواب میں 40 اسرائیلی مغوی فوجیوں کی رہائی کا ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے۔ عالمی میڈیا پر رپورٹس تھیں کہ حماس ڈیڑھ ماہ کی اس جنگ بندی پر آمادہ دکھائی دیتی ہے، لیکن اسرائیل کے تازہ حملے نے سیز فائر کی راہ میں مزید روڑے اٹکا دیے ہیں۔