بحری تجارت اور بندرگاہوں کے شعبے میں قانون سازی اور اصلاحات سے ملک کو اربوں ڈالر سالانہ کی بچت ہو سکتی ہے۔ میری ٹائم اینٹی کرپشن نیٹ ورک،ڈنمارک اور گلوبل کومپیکٹ نیٹورک پاکستان کے زیر اہتمام قومی کانفرنس میں تاجر برادری، آل پاکستان شپنگ ایسوسی ایشن، شپنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن، ٹرمینل آپریٹرز، آف ڈوک ٹرمینلز، اسٹیویڈورز ایسوسی ایشن، فریٹ فارورڈرز ایسوسی ایشن، کسٹم ایجنٹس، بانڈڈ کیریئرز، اور شپ بریکنگ کی صنعت، کراچی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری، فیڈریشن آف چیمبرز اینڈ کامرس، انٹرنیشنل چیمبرز آف کامرس، ہوزری مینوفیکچررز، ریڈی میڈ گارمنٹس، ٹاول مینوفیکچررز اور دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی.
پاکستان کسٹم اور مرکنٹائل میرین ڈیپارٹمنٹ، پاکستان سنگل ونڈو اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے نمائندوں نے اظہار خیال کیا. نیشنل میری ٹائم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بندرگاہوں اور جہاز رانی کے محکمے کی ڈائریکٹر جنرل عالیہ شاہد، اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے بورڈ آف ٹرسٹی، جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی، ڈنمارک سے آئے ہوئے میری ٹائم کے ماہرین اور دوسرے مقررین نے کہا کہ پاکستان کی تجارت کا 80 فیصد دارومدار سمندری راستوں اور بندرگاہوں کے استعمال پر ہے۔
پاکستان سے برآمدی سامان لے جانے اور درآمدی سامان لانے کا 90 فی صد بزنس غیر ملکی جہاز راں کمپنیوں کے پاس ہے، یہ غیر ملکی کمپنیاں سالانہ اربوں 7 سے 8 ارب ڈالر صرف فریٹ چارجز کی مد میں وصول کر تی ہیں. ملک کی بحری تجارت میں ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام، اس شعبے میں قانون سازی اور اصلاحات کے ساتھ ساتھ فریٹ چارجز کی مد میں کثیر زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے. مقررین نے کہا کہ پاکستان سنگل ونڈو ایک انقلابی قدم ہے،
جس سے ملک کی معیشت مستحکم بنیاد پر استوار ہوگی۔ بحری شعبے کی ترقی کے لیے غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور جہاز رانی کی صنعت کے فروغ سے ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہوگا_ شپنگ انڈسٹری میں اس وقت وسیع سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پائیدار سرمایہ کاری کے ذریعے نہ صرف حکومتی ریونیو میں نمایاں اضافہ ہو گا،
بلکہ روزگار کے وسیع مواقع بھی میسر ہوں گے، جہاز رانی کے شعبے میں خدمات انجام دینے والی افرادی قوّت کی منظّم تربیت کے لیے بین الاقوامی معیار کے تربیتی ادارے بھی قائم کیے جانے چاہئیں۔ اس وقت ہمیں ایک مربوط اور جامع شپنگ پالیسی کی ضرورت ہے جو طویل المیعاد ہو، اگر حکومت ایسی مؤثر پالیسی تشکیل دینے اور سرمایہ کاروں کو اس شعبے کی جانب راغب کرنے میں کام یاب ہو جائے،
تو جہازرانی کا شعبہ پاکستان میں اربوں ڈالرز کی حامل سرمایہ کاری کا شعبہ بن کر ابھرے گا_ انہوں نے کہا کہ پورٹس پر بہت زیادہ وقت خرچ ہونے کی وجہ سے درآمد و برآمد کرنے والے ہر کاروباری فرد کے لیے منفی اثر ہوتا ہے، اور کاروباری لاگت میں بیت اضافہ ہوتا ہے جس سے مصنوعات کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے
اور عام صارف پر بوجھ پڑتا ہے ساتھ ہی اگر ملک کی معیشت پر اس کے مجموعی اثر کے لحاظ سے بات کی جائے تو اس سے پاکستان کی جی ڈی پی پر بھی اثر پڑتا ہے
۔کانفرنس میں بحری تجارت میں بد عنوانی کی روک تھام کے حوالے سے مذاکرہ بھی ہوا جس میں شرکاء نے صنعت کو درپیش مسائل اور ان کے حل کی تجاویز پر تبادلہ خیال کیا۔