شایان احمد ;
بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کی آنکھوں میں دھول جھونک دی۔ امریکی صدر کے ساڑھے 4 سالہ دور میں کم از کم 100 مرتبہ کانگریس کے علم میں لائے بغیر اسرائیل کو ہتھیار فراہم کیے گئے۔ یہی نہیں فلسطینیوں پر آتش و آہن کی بارش کیلیے غزہ جنگ کے دوران بھی کئی ارب ڈالر کا اسلحہ تل ابیب کو دیا گیا۔ ہوش ربا رپورٹ پر وائٹ ہاؤس نے مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی ہے۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق صدر جوبائیڈن نے کانگریس کی منظوری کے بغیر کم از کم 100 بار اسرائیل کو ہتھیار بھیجنے کیلئے قانون میں موجود سقم کا استعمال کیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کانگریس کو اسرائیل کو بھجوائے گئے ہتھیاروں کی صرف دو کھیپوں کے بارے میں پیشگی اطلاع دی گئی تھی۔ جبکہ سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کو ایسی 100 سے زیادہ کھیپیں بھجوائی گئیں۔ جن میں مہلک ترین بم بھی شامل تھے۔
حتیٰ کہ قریبی اتحادیوں کو بھی ایسے ہتھیاروں کی فراہمی سے پہلے عام طور پر کانگریس میں قانون سازوں کو اسے نظرثانی کیلیے پیش کیا جاتا ہے اور پھر عوامی سطح پر اس کا اعلان ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں انتظامیہ نے ایک ہنگامی قانون کا استعمال کیا۔ جس میں نظرثانی کے عمل کو بائی پاس کر دیا گیا۔ آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے تحت اتحادی ممالک کیلئے امریکی ہتھیاروں کی فروخت پر ڈھائی کروڑ ڈالر کی حد ہے اور اس کیلئے بھی وسیع تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔
مختلف قسم کے بموں کیلئے یہ حد 10 کروڑ ڈالر تک بڑھ جاتی ہے۔ امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ وائٹ ہاؤس نے کانگرس کی منظوری کے بغیر مخصوص حدود کے اندر رہتے ہوئے اسرائیل کو سامان حرب کی ترسیل جاری رکھی۔ وائٹ ہاؤس نے ان ہتھیاروں کی تفصیلات شیئر نہیں کیں اور اس طریقے، یعنی ہتھیاروں کی حد کو عبور کیے بغیر، اس سقم کے ذریعے اسرائیل کو ’ہزاروں ہتھیار‘ بھجوائے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے کچھ ہتھیار امریکہ کے اپنے ہتھیاروں سے لیے گئے تھے۔ جبکہ کچھ پہلے سے منظور شدہ شپمنٹ کے عمل کو تیز کرتے ہوئے اسرائیل کو فراہم کیے گئے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ان الزامات کے بارے میں کہا کہ ’ہم نے ایوان کے اراکین کو مطلع کرنے کیلئے کانگریس کے طریقہ کار کی پیروی کی اور کانگریس کے اراکین کے ساتھ باقاعدگی سے معلومات کا اشتراک کیا۔ یہاں تک کہ جب قانونی طور پر رسمی اطلاع کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ الزامات کہ ہم نے ہتھیاروں کی کھیپ کو طے شدہ قانونی حدود سے نیچے رکھتے ہوئے منتقل کیا ہے یا کانگریس کے ممبران کو اس میں شامل نہیں کیا۔ بالکل غلط ہیں‘‘۔
اسرائیلی وزارت کی طرف سے شیئر کی گئی معلومات کے مطابق تل ابیب کو امریکہ سے ہر سال تقریباً تین ارب ڈالر کی فوجی امداد ملتی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اس وقت امریکہ سے اسرائیل بھیجے جانے والے فوجی ساز و سامان کی کل مالیت تقریباً 23 ارب ڈالر ہے۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی میں ڈیموکریٹ پارٹی کے رکن اور میری لینڈ سے منتخب سینیٹر کرس وان ہولن نے کہا کہ محکمہ خارجہ کانگریس کو طے شدہ حد سے کم ترسیل کے بارے میں مطلع کرنے کا پابند نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس (قانون میں موجود اس سقم) کا استعمال کانگریس کو مسلسل نظر انداز کرنے کیلئے کیا گیا۔ جو قانون کی روح، بلکہ کانگریس کا کنٹرول اور اس کے کردار کو بھی کمزور کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے گارڈین سمیت برطانیہ کے معروف اخبارات کی جانب سے اس پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے این بی سی کی جنوری کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ واشنگٹن غزہ میں کارروائیوں کی شدت کو کم کرنے کیلئے تل ابیب انتظامیہ کو ہتھیاروں کی فروخت سست کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔