حکومت نے بازاروں میں نگرانی کا سخت نظام قائم کر دیا، فائل فوٹو
 حکومت نے بازاروں میں نگرانی کا سخت نظام قائم کر دیا، فائل فوٹو

افغانستان میں تیار کھانوں کی تقسیم شروع

محمد قاسم :
افغان طالبان نے رمضان المبارک میں تیار کھانوں کی تقسیم شروع کر دی ہے۔ جبکہ حزب اسلامی سے وابستہ افراد نے بھی کابل، قندھار، ننگرہار اور مزار شریف سمیت دیگر شہروں میں تیار کھانا روزہ داروں میں تقسیم کرنا شروع کردیا ہے۔

کابل سے ذرائع کے مطابق ماضی میں افغانستان کے مخیر حضرات بڑے پیمانے پر پکیجز بناکر لوگوں میں کھانا تقسیم کرتے تھے۔ تاہم اس بار بڑے پیمانے پر غزہ کیلئے بھی امداد پہنچائی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے افغانستان میں مستحق افراد کو ملنے والی امداد میں کمی آئی ہے۔ سعودیہ، عرب امارات، ترکی اور پاکستان سے امدادی ادارے افغانستان میں رمضان سے قبل طالبان حکومت اور ماضی میں اشرف غنی اور حامد کرزئی حکومت کے ذریعے بڑے پیمانے پر امدادی پیکیج تقسیم کرتے تھے۔ لیکن پہلی بار امدادی اداروں کا رخ غزہ کے مسلمانوں کی طرف ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے امدادی ادارے خاص کر الخدمت فائونڈیشن نے بھی اپنی امداد کا رخ غزہ کی طرف موڑ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے افغانستان میں رمضان میں جانے والی امداد میں کمی ہوئی ہے۔ افغان طالبان کے ایک اہلکار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پیکیجز میں کمی کے بعد طالبان حکومت نے مخیر حضرات کے تعاون سے کابل اور دیگر شہروں میں تیار کھانا فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔ سعودی عرب اور قطر نے امداد کی یقین دہانی کرائی ہے۔

دوسری جانب حزب اسلامی افغانستان نے بھی کابل سمیت دیگر شہروں میں تیار کھانا اور پیکجز کی تقسیم شروع کردی ہے۔ حزب اسلامی کے سربراہ گل بدین حکمتیار نے ہدایت کی ہے کہ تیار کھانا اسپتالوں اور ٹرانسپورٹ اڈوں میں پہنچایا جائے۔

دوسری جانب کابل میں تیار پلائو افطاری میں فراہم کرنے والے حکمت یار کے نواسے اور ڈاکٹر غیرت بہیر کے صاحبزادے عبید اللہ بہیر نے ’’امت‘‘ کو بتایا رمضان میں کابلی پلائو تیار کرکے غریبوں کو فراہم کیا جارہا ہے۔ عام لوگوں کو گھر کو لے جانے کی بھی اجازت ہے اور دستر خوان بھی بچھایا جارہا ہے۔ جس میں پلائو اور ایک روٹی شامل ہے۔

انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس سال افغانستان میں پاکستان سے آنے والے افغان مہاجرین کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ کابل اور ننگر ہار میں موجود افغانوں کو رمضان میں خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ سردی سے بچائو کا سامان بھی موجود نہیں۔ دوسری جانب ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان کے سربراہ مولوی ہبت اللہ اخونزادہ نے طالبان حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے بازاروں میں نگرانی کے سخت نظام قائم کریں اور رمضان بازاروں میں 10 فیصد سبسڈی دیں۔ جبکہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف کارروائی کریں۔

ذرائع کے مطابق اس اعلان کے بعد تاجروں نے دکانوں کے باہر 10 سے 25 فیصد رعایت کے بورڈز آویزاں کردیئے ہیں ۔ جبکہ گزشتہ روز کابل میں 2 دکانداروں کو گراں فروشی پر موقع پر جرمانہ کرکے متنبہ کیا گیا کہ آئندہ اس حوالے سے کوئی معافی نہیں دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے بڑے شہروں میں مانیٹرنگ نظام قائم کیا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے ادارے پوناما کے مطابق افغانستان میں 10 لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور اس کیلئے تمام اسلامی ممالک اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو امداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو قوی امکان ہے کہ یہ تعداد تقریباً 20 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔

دوسری جانب افغان حکومت نے کہا کہ موجودہ مسائل کی ذمہ داری امریکہ پر ہے۔ جس نے افغان عوام کے 9 ارب ڈالرز منجمد کرنے کے نام پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے افعان عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔