اسلام آباد(اُمت نیوز) سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت آج بھی ہوگی۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آج تک کیلئے ملتوی کردی، عدالت نے کہا تھا کہ سائفر کیس میں کیا بے چینی تھی جو رات کے 9 بجے بھی ٹرائل ہورہا تھا؟ فیئر ٹرائل کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔**
منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
سابق وزیر اعظم کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ پیش ہوئے جبکہ عمران خان کی بہنیں، علی محمد خان اور دیگر بھی عدالت موجود تھے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے 12 اکتوبر 2022 کی کمپلینٹ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنائی اور کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس وقت کے سیکرٹری داخلہ نے کمپلینٹ دائر کی،5 اکتوبر 2022 کو کس نے انکوائری شروع کی؟ اس حوالے سے کوئی دستاویز عدالتی ریکارڈ پر نہیں، اگر یہ دستاویز ریکارڈ پر نہ ہو تو کیس کی بنیاد ہی نہیں تو کیس ختم ہو جائے گا۔
سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی نے اپنے بیان میں کہا کہ 5 اکتوبر انکوائری ڈی جی ایف آئی اے کی ہدایت پر شروع کی، ڈی جی ایف آئی اے اس کیس میں گواہ بھی نہیں ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ نے ڈی جی ایف آئی اے کو انکوائری کا کہا تھا؟ آپ ہی کہہ رہے ہیں انکوائری کمپلینٹ دائرہونے سے پہلے شروع ہوئی، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ انکوائری کمپلینٹ دائر ہونے سے پہلے شروع ہوئی، اس طرح تو پورا اسٹریکچر ہی منہدم ہو جائے گا۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جتنے بھی کیسز بانی پی ٹی آئی کے خلاف آئے ہیں وہ آؤٹ دا باکس ہی رہے ہیں، توشہ خانہ، سائفر اور عدت میں نکاح کیس کا فیصلہ بھی اسی طرح ہی آیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کیس بھی نہیں نہ ہی مرڈر کیس کی طرح کہہ سکتے ہیں بلکہ یہ مکس ہائبرڈ کیس ہے، یہ اپنی نوعیت کا الگ کیس ہے اس میں نئی عدالتی نظیر بنے گی۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ یہ آخری بات ہو گی کہ میں کہو کہ ٹرائل جج کو ایک اور موقع دے دیں، میں میرٹ پر دلائل دوں گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حق جرح ختم ہو جائے آپ کی حق تلفی ہوتی ہے، ملزم عدالت کی نظر میں فیورٹ چائلد ہوتا ہے، شام کے ٹرائل کی کیا حیثیت ہوگی؟ اس حوالے سے بھی پوچھیں گے، کیا بے چینی تھی کہ رات کے 9 بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا، آرٹیکل ٹین اے کے مطابق فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ٹرائل کی کیا جلدی تھی ؟ اس پر وکیل نے کہا کہ شاید یہ کسی ڈیڈ لائن کو پہنچنا چاہ رہے تھے، میں اگر یہ کہوں کہ اسلام آباد کی تاریخ کا متنازع ترین ٹرائل تھا تو عجیب نہیں ہوگا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ دونوں سرکاری وکیل عدالت نے تعینات کیے تھے؟ کیا ایڈووکیٹ جنرل نے نام بھیجے تھے؟ سلمان صفدر نے کہا کہ جی! ایڈوکیٹ جنرل نے یہ تعینات کیے تھے۔
عدالت نے کہا کہ پھر تو ہمیں ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس کرکے سننا پڑے گا، ان سرکاری وکلا کی اسٹینڈنگ کیا تھی؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کردیا، ایڈووکیٹ جنرل نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے لیے سرکاری وکیل تجویز کیے تھے۔
بعدازاں عدالت عالیہ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔