عمران خان :
موبائل اور سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن مالیاتی فراڈ کرنے والے گروپ کے مرکزی ٹھکانوں پر کیے گئے آپریشن میں انتہائی جدید الیکٹرانک لاکر برآمد ہوئے۔ یہ لاکرز فنگر پرنٹس اور پاس ورڈ سے کھلتے ہیں۔ ملزمان برسوں سے کمائی گئی اربوں روپے کی رقوم اور امریکی ڈالرز ان میں بھر کر رکھے ہوئے ہیں۔
یہ آپریشن پنجاب کے علاقے میاں چنوں میں اوڈھ برادری کی ایک کالونی میں اس وقت کیا گیا۔ جب ایک روز قبل اسی علاقے میں ملزمان کے خلاف کارروائی کیلئے جانے والی ایف آئی اے ٹیم پر حملہ کیا گیا اور انہیں یرغمال بنا کر تشدد کرکے زخمی کیا گیا۔ جبکہ ان کی گاڑیاں تباہ کردی گئیں۔
واقعہ کے بعد ملزمان کیخلاف مقامی تھانے میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ کرنے کے بعد گزشتہ روز پنجاب کی ایلیٹ کمانڈو پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ آپریشن کیا گیا۔ جس کے بعد ایف آئی اے ٹیم علاقے میں دوبارہ پہنچی اور آن لائن فراڈ اور حوالہ ہنڈی میں ملوث ملزمان کے خلاف اپنی کارروائی مکمل کی۔ تاہم اس وقت تک اصل ملزمان علاقے سے فرار ہوچکے تھے۔
ذرائع کے بقول پولیس نے آپریشن کے آغاز میں ایف آئی اے ٹیم کو اپنے ساتھ نہیں لیا۔ جس کے نتیجے میں اس کارروائی پر سوالیہ نشان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ آن لائن مالیاتی فراڈز میں ملوث اوڈھ برادری کے دیہاتوں پر ایف آئی اے کے بغیر پولیس آپریشن میں طلائی زیورات اور دیگر غیر ملکی کرنسی کے ساتھ ڈالروں کی بھرمار سے پولیس کے مزے آگئے۔ انہوں نے نوٹ جیبوں میں بھر لئے۔ ایف آئی اے اور پولیس کی دوبارہ کارروائی میں 5 کروڑ سے زائد کی رقم برآمد ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا گیا۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ دو روز قبل ایف آئی اے ملتان سرکل کی ٹیم کو حوالہ ہنڈی کے منظم گروہ کی اطلاع ملی کہ میاں چنوں سے حوالہ ہنڈی کا نیٹ ورک چل رہا ہے۔ اطلاع پر خاتون سب انسپکٹر سارہ صدیق نے اپنی ٹیم اور پولیس کے ہمراہ میاں چنوں میں اوڈھ کالونی میں چھاپہ مار کر برادری کے خالد نامی شخص کو گرفتار کرلیا۔ اس دوران ملزم کے دیگر ساتھیوں نے ایف آئی اے کی سرکاری گاڑی کو گھیر کر ایف آئی اے اہلکاروں پر حملہ کردیا۔ جس پر تفتیشی افسر سارہ صدیق دیگر اہکاروں کے ہمراہ ملزم کو لے ملتان سرکل روانہ ہوگئی۔ جبکہ خاتون سب انسپکٹر کی پرائیویٹ گاڑی میں سوار محرر ایف آئی اے سجاد، ثناء اللہ اور رضا کو گروہ کے افراد نے پکڑ لیا اور اوڈھ بستی لے گئے۔ جہاں تمام اہلکاروں کو یرغمال بناکر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر مقامی پولیس نے پہنچ کر ایف آئی اے کے تینوں اہکاروں کو بازیاب کرایا۔
بتایا گیا کہ تفتیشی افسر سارہ صدیق اپنی پرائیویٹ گاڑی بھی ریڈ پر ساتھ لے گئی تھیں۔ جس کو اوڈھ گینگ کے افراد نے تباہ کردیا۔ ذرائع کے بقول تفتیشی افسر سارہ صدیق اوڈھ برادری کے ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی کے کیس میں انکوائری افسر بھی ہیں۔ جس پر غیر ملکی کرنسی اور ہنڈی حوالہ کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اس بااثر شخص کو گرفتار کرنے کیلئے ٹیم گئی اور بائی پاس چوک پر چھاپہ مارا لیکن اوڈھ برادری کے افراد نے چھڑا لیا اور ایف آئی اے ٹیم یرغمال بنا لیا اور منت سماجت کے بعد چھوڑا۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور راولپنڈی سمیت دیگر شہروں میں ان گنت ایسے شہری لٹ چکے ہیں جنہیں موصول ہونے والی کالز پر انعامی اسکیموں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، احساس کفالت پروگرام کے علاوہ بینکوں کے نمائندے بن کر لوٹا گیا۔ ایسی وارداتوں کی تفتیش میں تانے بانے پنجاب کے انہیں علاقوں سے ملے۔ جہاں اب کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس تفتیش سے منسلک افسر کے بقول ان علاقوں میں ایسے دیہات بھی ہیں جہاں کی پوری آبادی فراڈیوں پر مشتمل ہے اور انہوں نے اسے ایک پیشے کی حیثیت سے اپنا لیا ہے۔ فراڈ کی وارداتوں سے حاصل آمدنی سے ان کے مکان ملکی اور غیر ملکی سامان سے بھر گئے ہیں۔ زمانہ قدیم سے نظربندی اور دیگر مختلف چالبازیوں کے ذریعے شہریوں سے ان کی رقوم اور زیورات لوٹنے والے دیہاتی جدید زمانے میں آن لائن فراڈ کرنے لگے ہیں۔
ایک دہائی قبل تک یہ لوگ صوبہ پنجاب کے علاقوں سرگودھا، فیصل آباد، لیہ اور ملتان کے دوردراز گاوں میں بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ انہی کے افراد بڑے شہروں کی گلیوں کوچوں میں کپڑے کی چادروں میں قرآن پاک اور دیگر مقدس مذہبی کتابیں فروخت کرنے کے ساتھ ہی کپڑے کے تھان وغیرہ بھی بیچتے تھے۔ تاہم ان کی اولادیں اب آن لائن فراڈز کی وارداتوں سے کروڑوں روپے کما کر ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن اور دیگر پوش سوسائٹیز کے علاوہ دبئی میں جائیدادوں کے مالک بن چکی ہیں۔ موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے ساتھ مختلف اداروں سے شہریوں کا ڈیٹا ہاتھ لگنے کے بعد اس کام کو آگے بڑھانے کیلئے انہوں نے باقائدہ ٹیوشن سینٹر کھول رکھے ہیں۔ جس میں انہی دیہاتوں کی نئی نسل کو تربیت دی جا رہی ہے۔
ان فراڈیوں نے گزشتہ برسوں میں پاکستان میں تقریباً ہر اس فرد کو لوٹنے کی کامیاب یا ناکام کوشش کی۔ جس کے پاس موبائل فون اور یا سوشل میڈیاکی سہولت دستیاب ہے۔ انہی علاقوں میں پنجاب کے علاقے گوجرہ کا ایک گائوں چک نمبر 95 ب ج بھی ہے۔ جہاں پر وارداتوں سے تنگ آکر ایک تھانیدار نے یہاں گزرنے والے لوگوں کو تنبیہہ کرنے کیلئے ایک مستقل بورڈ بھی آویزاں کردیا۔ جس پر واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ یہاں کے لوگ لوگوں کو دھوکہ دے کر مال اور سونے کو ڈبل کرنے کا لالچ دے کر لوٹ لیا جاتا ہے۔
اس لئے مطلع کیا جاتا ہے کہ ان کے جھانسے میں نہ آئیں۔ ان افراد نے اپنے دیہاتوں میں درختوں اور راستوں پر بیٹری سے چلنے والے کیمرے تک لگا رکھے ہیں۔ جبکہ دیہاتوں سے کئی کئی کلومیٹر دور تک ان کے افراد موبائل فون لے کر بیٹھے ہوتے ہیں اور جیسے ہی انہیں اطلاع ملتی ہے کہ مقامی پولیس یا کوئی دوسرے ادارے کے اہلکار ان کے علاقوں کی طرف جا رہے ہیں تو یہ پیشگی اطلاع پہنچا دیتے ہیں۔ جس کے بعد ان دیہاتوں کے تمام گھروں سے مرد غائب ہوجاتے ہیں۔ جبکہ عورتیں جمع ہو کر سرکاری اہلکاروں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کی تیاری میں لگ جاتی ہیں۔ تاکہ مزاحمت کرکے اپنے مردوں کو اور جمع کئے گئے سامان کو بچایا جاسکے۔ اب تک ان کی وارداتوں کا دائرہ کار پاکستان سے نکل کرخلیجی ممالک تک پھیل چکا ہے۔ جس کے بعد دبئی میں یہ رقوم منگواتے ہیں اور وہاں سے رقم کی منتقلی کرتے ہیں۔
واٹس ایپ یا موبائل پر نمبر دوسرے ملک کا شو ہوتا ہے۔ تاہم یہ پاکستان کے ہی کسی دیہات سے بیٹھ کر بات کر رہے ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب ان ملزمان نے پورے نیٹ ورک بنا لیے ہیں۔ یہ نیٹ ورکس محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے یہ دوسروں پر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کو ہر چیز کی اطلاع پہلے سے مل جاتی ہے۔