اطہر فاروقی:
’’میں نے اپنی زندگی میں آسیب سے متاثر سینکڑوں افراد کا روحانی علاج کیا۔ جنات کے اثرات اور نظر بد سے لے کر دیگر روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے میرے دم اور تعویذ کا چرچا دور دور تک ہے۔ لیکن زندگی میں ایک موڑ ایسا بھی آیا کہ میں اپنی بیوی کو ان جنات کے اثرات سے نہ بچا سکا۔ وہ برسوں اذیت میں رہی اور اسی کرب میں خالق حقیقی سے جا ملی‘‘۔
سندھ کے شہر ڈگری کے ایک گائوں میں رہائش پذیر عامل قاری سرور (نام تبدیل کردیا گیا ہے) اپنی بپتا سنارہے تھے۔ یہ صرف ایک قاری سرور کی کہانی نہیں۔ عاملوں کی بڑی تعداد عموماً اسی نوعیت کی صورتحال سے دوچار ہوتی ہے۔
جنات اور دیگر آسیب کا روحانی علاج کرنے والوں کے قریبی عزیزوں پر بھی عمل کے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ راستہ بڑا پُرخطر ہے۔ اس سلسلے میں ایک سے زائد عاملین سے آف دی ریکارڈ گفتگو کی گئی تو یہ عقدہ کھلا کہ جنات کے اثرات کے خاتمے کا علاج کرنے والے عاملین کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کے لئے خاص قسم کا حفاظتی چلّہ کرنا پڑتا ہے۔ بصورت دیگر جب وہ کسی مریض سے جنات کے اثر کو ختم کرتے ہیں تو اس کا رد عمل ان کے خونی رشتوں پر ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
عامل قاری سرور بھی ان عاملین میں شامل ہیں۔ جنہوں نے شاید خاص چلّے کے ذریعے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے حفاظتی حصار کے حوالے سے غفلت برتی اور پھر ان کی اہلیہ جنات کے ردعمل کا شکار ہوگئی۔
قاری سرور نے نمائندہ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا ’’میں پچھلے پندرہ برس سے جنات اور آسیب سے متاثرہ افراد کا روحانی علاج کر رہا ہوں۔ اس دوران میں نے سینکڑوں مریضوں کا کامیاب علاج کیا۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان سمیت ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ میرے پاس دم کرانے اور تعویذ لینے آتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں، جنہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ ان کا گھر یا کوئی کمرہ جنات کے زیر اثر ہے تو وہ مجھے اپنے گھر بھی لے جاتے ہیں۔ میں انہیں پڑھا ہوا پانی دیتا ہوں، جسے وہ گھر یا متاثرہ کمرے میں چھڑکتے ہیں یا بعض کو تعویذ دینا پڑتا ہے جسے وہ متاثرہ مقام پر دبا دیتے ہیں۔
روحانی طریقہ کار میں اتنی طاقت ہے کہ غلط قسم کے جنات اگر کسی کو تنگ کر رہے ہوں تو انہیں بھگایا جاسکتا ہے۔ یہ خاص علم اور طریقہ علاج عموماً بزرگوں سے ملتا ہے، جو نسل در نسل چلتا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں تقریباً ڈیڑھ دہائی سے لوگوں کا روحانی علاج کر رہا ہوں۔ لیکن میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ میری اپنی اہلیہ بھی ان ہی اثرات کا شکار ہوجائے گی۔
دراصل جنات اپنا ری ایکشن بھی دیتے ہیں۔ایک روز میری اہلیہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ اسے بظاہر کوئی جسمانی عارضہ لاحق نہیں تھا۔ لیکن اس کی کیفیت یہ ہوگئی تھی کہ اکثر اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتی تھی۔ حتیٰ کہ بچوں اور گھر کے دیگر افراد کو پہچاننے سے انکار کردیتی۔ بعض اوقات اتنی بلند آواز میں چیختی چلاتی کہ پڑوسیوں تک یہ چیخیں پہنچتیں۔
آہستہ آہستہ اس کی کیفیت میں شدت آتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ برہنہ حالت میں گھر سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کرتی۔ جس پر مجبوراً اسے کمرے میں بند رکھنا پڑتا تھا۔ تین برس اسی کیفیت میں گزر گئے۔ تھک ہار کر میں نے اپنے سے بڑے ایک عامل سے رابطہ کیا اور اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس عامل کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں سے تھا۔ مجھے اپنی بیوی کو علاج کے لئے وہاں لے جانا پڑا۔
انہوں نے مجھے اہلیہ کے لئے مختلف وظائف بتائے اور کئی قسم کے تعویذ بھی دیے۔ اس علاج کے بعد میری اہلیہ کی طبیعت کافی بہتر ہوگئی۔ میں نے سکھ کا سانس لیا۔ اب میری اہلیہ اپنے ہوش و حواس میں تھی اور اس کی جنونی کیفیت بھی تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس پر غالب جنات نے اس کی جان چھوڑ دی ہے۔
رمضان کی آمد آمد تھی۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ اب اہلیہ کے ہمراہ عمرہ کرلیا جائے۔ گزشتہ ماہ مارچ میں اپنی اہلیہ کو لے کر سعودی عرب روانہ ہوگیا۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد اہلیہ کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل کی۔ واپسی کی تیاری کر رہے تھے کہ اہلیہ کی طبیعت دوبارہ خراب ہونی شروع ہوگئی۔ کے پی کے عامل نے جو وظائف بتائے تھے اور تعویذ دیے تھے۔ وہ سب آزمالئے۔ لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ آخر کار اسی حالت میں اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔
خاندان والوں کو اطلاع دی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ میت پاکستان لے آئیں۔ بعض کا مشورہ تھا کہ مدینہ منورہ میں تدفین کردی جائے۔ میں خود بھی یہی چاہتا تھا۔ چنانچہ مدینہ منورہ میں ہی اہلیہ کی تدفین کردی گئی‘‘۔
عامل خادم حسین (فرضی نام) کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون کے رہائشی ہیں۔ وہ کئی برس سے لوگوں کا روحانی علاج کر رہے ہیں۔ خادم حسین کا طریقہ علاج یہ ہے کہ وہ متاثرہ مریض کی بنیان منگواتے ہیں۔ ایسی بنیان جسے مریض نے کم از کم چوبیس گھنٹے زیب تن کیا ہو۔
خادم حسین کے گھر پر مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ان میں غریب اور امیر دونوں شامل ہیں۔ ان کے دروازے پر بڑے قیمتی گاڑیاں عموماً کھڑی نظر آتی ہیں۔ خادم حسین نے اپنے ایک مرشد سے یہ علم سیکھا تھا۔ جو بہادرآباد کے رہائشی ہیں۔ وہ پچھلے چوبیس برس سے لوگوں کا روحانی علاج کر رہے ہیں۔
ایک روز ان کے بارہ سالہ بیٹے کی طبیعت بھی اچانک خراب ہوگئی۔ اس کا سر درد کی شدت سے پھٹتا تھا۔ یہ دو ہزار تیرہ کی بات ہے۔ مختلف ڈاکٹروں کو دکھایا اور کئی قسم کی درد کش دوائیاں استعمال کیں۔ لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔
ایک روز خادم حسین اپنے بیٹے کو عباسی شہید اسپتال کے ایک معروف نیورو سرجن کے پاس لے گئے۔ انہوں نے ان کے بیٹے کا سی ٹی اسکین اور دیگر ٹیسٹ بھی کرائے۔ یہ سارے ٹیسٹ نارمل آئے۔ تاہم مرض کی شدت بڑھتی رہی۔ کوئی دوائی کام نہ کرتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ اچانک ان کے بیٹے کا سر بڑا ہونا شروع ہوگیا۔ پچھلے گیارہ برس سے کسی ڈاکٹر یا سرجن کو ان کے بیٹے کا مرض سمجھ نہیں آسکا ہے۔ اب ان کا بیٹا تئیس برس کا جوان ہے۔
سر کا درد تو ختم ہوچکا ہے۔ لیکن اس کا سر پیشانی کی طرف سے تین سے چار انچ آگے نکلا ہوا ہے۔ اب خادم حسین اپنے بیٹے کا کسی ڈاکٹر سے چیک اپ نہیں کراتے۔ کیونکہ ایک عالم ہونے کے ناطے انہیں اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ معاملہ جسمانی علاج کا نہیں بلکہ اثرات کا ہے۔
عاملین کے ساتھ عموماً ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ کھوج لگانے کے لئے جب شہر کے چند عاملین سے رابطہ کیا گیا تو ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ جنات اور دیگر اثرات کا علاج کرنے کی اجازت عموماً بزرگوں سے ملتی ہے۔ کراچی کے رہائشی یہ عامل پچھلے پندرہ برس سے روحانی علاج کر رہے ہیں۔ انہیں یہ عمل اپنے مرشد سید غلام نبی حسینؒ سے ملا تھا۔ جن کا مزار ملیر سعود آباد میں ہے۔
عامل نے بتایا ’’سب سے پہلے یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جنات بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ ان میں بھی انسانوں کی طرح اچھے اور برے ہوتے ہیں۔ کوئی طاقتور ہوتا ہے تو کوئی کمزور ہوتا ہے۔ بعض شریر جنات انسانوں کو پریشان کرتے ہیں۔ ایسے کسی مریض کو عامل کے پاس لایا جاتا ہے تو وہ اپنے زیر قبضہ موکل کے ذریعے اس کا علاج کرتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مریض پر حاوی جنات، عامل کے موکل سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں علاج کا الٹا اثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات عامل اور اس کے اہل خانہ پر بھی مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
مثلاً میں اپنی مثال دوں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میرے گھر کا پنکھا، واشنگ مشین اور دیگر الیکٹرانک آلات اچانک خراب ہوجاتے ہیں۔ الیکٹریشن اور مکینک کو بھی یہ خرابی سمجھ نہیں آتی۔ کبھی یہ اثرات اتنے سنگین ہوجاتے ہیں کہ میں خود یا گھر کا کوئی فرد شدید بیمار ہوجاتا ہے۔ لیکن ڈاکٹروں کو مرض سمجھ نہیں آتا‘‘۔
پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خاں سے تعلق رکھنے والے ایک عامل نے بتایا کہ جنات کے اثرات ختم کرنے والے عاملین کو چالیس دن کا ایک مخصوص چلّہ کاٹنا ہوتا ہے۔ بہت سے وظائف اور اذکار بھی یاد کرنے ہوتے ہیں۔ یہ ایسا حفاظتی حصار ہوتا ہے۔ جس کے سبب عامل اور اس کے اہل خانہ ردعمل میں ہونے والے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ جو عاملین یہ چلّہ اور وظائف کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ عموماً وہ خود یا ان کی فیملی کا کوئی رکن جنات کے اثرات کا شکار ہوجاتا ہے۔
کراچی کے ایک عامل نے ایک عجیب قصہ سنایا۔ وہ بتاتے ہیں ’’دہلی کے ایک بزرگ تھے۔ جو جنات اتارنے کا عمل کیا کرتے تھے۔ ایک جن کو تابع کرنے کے لئے انہوں نے اس کے سر پر کیل ٹھونکی تو وہ انسانی شکل میں ظاہر ہوگیا۔ چونکہ یہ معاملات مخفی رکھنے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بزرگ نے اپنی فیملی کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ وہ اس جن سے مختلف علاج کرانے کے ساتھ گھر کا کام بھی کرایا کرتے تھے۔
بزرگ کی بیٹی کی شادی کے دن طے ہوئے تو گھر کا کام بڑھ گیا۔ جن کو لکڑیوں کا ایک بھاری گٹھا سر پر اٹھانا تھا۔ اس نے بزرگ کی اہلیہ سے کہا کہ وہ یہ گھٹا اس کے سر پر رکھوانے میں مدد کرے۔ جب بزرگ کی اہلیہ لکڑیوں کا گٹھا اس کے سر پر رکھنے میں مدد کر رہی تھی تو اس کی نظر کیل پر پڑگئی۔ اس کا تذکرہ اس نے جن سے کیا تو اس نے بظاہر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کیل نکالنے کا کہا۔
بزرگ کی اہلیہ کی طرف سے کیل نکالتے ہی انسانی شکل میں موجود جن غائب ہوگیا۔ بعد ازاں اہلیہ نے یہ عجیب و غریب واقعہ اپنے شوہر سے بیان کیا تو وہ خاموش رہے۔ جس روز بزرگ کی بیٹی کی بارات آنی تھی۔ اس روز وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مردہ پائے گئے۔ کسی کو موت کی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔ گو کہ یہ واقعہ بہت عجیب و غریب اور عقل سے بالاتر ہے۔ تاہم عامل کا اصرار تھا کہ یہ حرف بہ حرف درست بات ہے۔ جو اس نے اپنے بزرگوں سے سنی تھی۔