امت رپورٹ:
قریباً ایک ماہ بعد سانحہ 9 مئی کی برسی ہے۔ لیکن اس واقعہ میں ملوث قرار دیئے گئے بہت سے کردار ناصرف آزاد ہیں بلکہ ایوانوں میں پہنچ چکے ہیں اور مسلسل غرا رہے ہیں۔ وہ ایک اور 9 مئی برپا کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے بھی سنگین بات یہ کہ وہ خیبر پختونخوا سے وفاق پر چڑھائی کے خواہش مند ہیں۔
یعنی اگر ایسا ہوتا ہے تو سانحہ 9 مئی دہرا نے کے لئے اس بار انہیں سرکاری فورس اور مشینری دستیاب ہوگی۔ مقتدرہ سے راہ و رسم رکھنے والے ایک ذریعے کے بقول یہ خارج از امکان نہیں کہ انہیں ٹی ٹی پی عناصر کی سپورٹ حاصل ہو، جو پی ٹی آئی کا عسکری ونگ بن چکی ہے۔ پہلے 9 مئی کا پلان زمان پارک میں بنا تھا۔ اب خیبرپختونخوا میں ترتیب پارہا ہے اور اسلام آباد میں پارٹی کے مرکزی دفتر سے ہدایات وصول کی جارہی ہیں۔ اس سب کے پیچھے قیدی نمبر 804 ہے، جو جیل سے فساد ایکسپورٹ کررہا ہے۔
پلان یہ ہے کہ عید کے بعد ملک کے مختلف شہروں، خاص طور پر خیبرپختونخوا میں چھوٹے موٹے احتجاجی جلسے اور ریلیاں نکال کر مومنٹم بنایا جائے گا۔ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے منظم کمپین چلائی جائے گی کہ ’’حقیقی آزادی‘‘ کے لئے نکلو۔ ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘ اور یہ کہ جس طرح 8 فروری کو ووٹ ڈالنے کے لئے نکلے تھے اسی طرح اپنے ’’مرشد‘‘ کو جیل سے نکالنے کے لیے سڑکوں پر نکلو۔ جب کارکنان کو پوری طرح متحرک کرلیا جائے گا تو پھر لانگ مارچ کی کال دی جائے گی، جس کی منزل بظاہر اسلام آباد کا ڈی چوک ہوگا۔ لیکن یہ برین واش شدہ کارکنان پر منحصر ہے کہ وہ پچھلے برس کی طرح کسی بھی طرف نکل جائیں۔
سوشل میڈیا پر ابھی سے نوجوان کارکنان کی ذہن سازی کے لئے کمپین شروع کی جا چکی ہے۔ تاکہ ان کے جذبات کو ایک بار پھر سیاسی مفاد کیلئے استعمال کیا جاسکے۔ بالکل اسی طرح جیسے پچھلے 9 مئی سے پہلے نوجوان سپورٹرز کو مشتعل کرنے کے لئے ’’مرشد‘‘ نے اپنی گرفتاری کو ریڈ لائن قرار دیا تھا۔
تب واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے ’’مرشد‘‘ کا یہ پیغام مرکزی اور دوسرے درجے کی قیادت کو پہنچا یا گیا تھا کہ اس کی گرفتاری کی صورت میں کارکنوں کو کہاں اور کن عسکری تنصیبات پر لے جانا ہے اور پھر سانحہ ہوگیا۔ بالکل اسی طرح اب ایک اور 9 مئی کے لئے کارکنان کو چارچڈ کیا جارہا ہے۔ جبکہ انہیں پھر پرانی لائن سمجھائی جارہی ہے کہ احتجاج کی انتہا کیا ہونی چاہیے۔
پہلے بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی نے خود کو زہر دینے کا بھونڈا الزام تین اعلیٰ عسکری افسران پر لگایا۔ اب عمران خان نے سپہ سالار پر سنگین ترین الزامات لگائے ہیں۔ یہ الزامات ایک ایسے موقع پر لگائے گئے ہیں جب پی ٹی آئی عید بعد بھرپور تحریک کی تیاری کررہی ہے۔ یوں نوجوان کارکنان کو سمجھایا گیا ہے کہ اصل احتجاج کس کے خلاف کرنا ہے۔ قصہ مختصر ایک خبطی انقلابی ہوس اقتدار میں سب کچھ تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔
بہت سے سادہ لوح تجزیہ نگار یہ کہہ رہے تھے کہ جیل میں میسر آنے والی تنہائی میں عمران خان کو خود احتسابی کا موقع ملے گا اور وہ درست طریقے سے ادراک کرسکیں گے کہ ان سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ یوں ان کی فسطائی طبیعت میں تبدیلی آئے گی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ مرض میں اضافہ ہو چکا ہے۔
اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔ مثلاً، جس شخص کو آپ نے سانحہ 9 مئی کا منصوبہ ساز قرار دیا ہو لیکن جیل میں اسے فائیو اسٹار جیسی سہولیات دے رکھی ہوں۔ جیل میں بھی جس کی حفاظت پر بارہ لاکھ روپے ماہانہ خرچ کئے جارہے ہوں۔ وہ پھر بھی کہہ رہا ہو کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس کے لئے سات بیرک مختص ہوں، تاکہ چہل قدمی میں دشواری نہ ہو۔ ٹی وی ، اخبارات اور ایکسرسائز مشینیں مہیا کی گئی ہوں۔ اس کے کھانے کے لیے خصوصی قواعد و ضوابط تشکیل دیے گئے ہوں۔ مکمل صحت افزا کھانا بنانے کے لیے ایک خصوصی کچن مختص ہو۔ یہ کھانا اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہو اور کھانا فراہم کرنے سے قبل ایک میڈیکل افسر یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل اسے چیک کرتا ہو۔
جیل کے میڈیکل افسر کے علاوہ، اس کی نازک طبیعت کی دیکھ بھال کے لئے راولپنڈی کے ایک اسپتال کے چھ میڈیکل افسر تعینات ہوں۔ راولپنڈی کے ایک دوسرے اسپتال کی خصوصی ٹیم جیل کا ہفتہ وار دورہ کرتی ہو۔ جو چھ ماہ کے دوران وہ 35 لاکھ روپے کا کھانا کھا جائے۔ چھ ماہ میں 975 ملاقاتیں کرے۔ پھر بھی اس کی طبیعت نہ بھرے۔ تب جیلر اس سے دست بستہ کہے، عزت مآب اس معاہدے پر دستخط کردیں، آپ کو ہفتے میں دوبار ملاقاتوں کی اجازت دی جارہی ہے۔ جس نے جیل کو پارٹی کا مرکزی دفتر بنا رکھا ہو۔ ہر ملاقاتی کے ذریعے وہ فساد پروموٹ کررہا ہو۔
جیل کے اندر لگنے والی عدالت میں اسے صحافیوں کو تفصیلی انٹرویوز دینے کی اجازت ہو۔ جس میں وہ ان اداروں اور شخصیات کے خلاف بھی نفرت انگیز پروپیگنڈا کرے ، جس کی اجازت آئین، پارلیمنٹ کے اندر بھی نہیں دیتا۔ وہ جیل میں بیٹھا ہو اور اس کا انٹرویو سمندر پار کے اخبار میں چھپ جائے۔ اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے تو پھر ’’بوڑھے انقلابی‘‘ کو سانحہ 9 مئی جیسے مزید سانحات کی پلاننگ سے کون روک سکتا ہے۔
دنیا کے کسی کونے، حتیٰ کہ کسی دور دراز کے افریقی ملک میں کیا قید بامشقت کے کسی قیدی کو اس سے نصف سہولیات بھی حاصل ہیں؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، نواز شریف سمیت کسی دوسرے سیاست دان کو جیلوں میں یہ سہولیات دی گئیں؟ حالانکہ کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی فوجی تنصیبات اور شہدا کی یاد گاروں پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار نہیں دیا گیا تھا۔