شایان احمد:
سولر پینلز میں شامل مرکبات قوت بینائی بحالی کیلئے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ برطانوی سائنس دانوں کی ٹیم نے انقلابی تحقیق پر کام شروع کر دیا ہے۔ جس کے تحت ابتدائی مرحلے میں 3 سولر سیلز ریٹینا یا پردہ چشم میں نصب کیے جائیں گے۔ دھوپ میں مخصوص عینک لگانا بھی لازمی ہوگی۔
یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنس دانوں کے مطابق انسانی آنکھ کے ریٹینا میں سولر پینل لگا کر بینائی کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ اسی تصور سے متاثر ہوکر محققین ایسے آلات کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ جن کی مدد سے نابینا یا عمر رسیدہ افراد میں بصارت کو بحال کیا جا سکے۔ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر اور انجینئر اوڈو رؤمر کہتے ہیں کہ اس نئی تحقیق سے امید ہو چلی ہے کہ جلد ہی نابینا اور بوڑھے افراد کی بصارت کو بحال کرنا ممکن ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ انسانی آنکھ کے ریٹینا یا پردہ چشم میں کچھ خاص سیل ہوتے ہیں۔ جنہیں ’’فوٹو ریسیپٹرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ فوٹو ریسپیٹرز بیرونی ماحول سے آنکھ میں پڑنے والی روشنی کو سگنلز میں تبدیل کر کے دماغ تک بھیجتے ہیں۔ انہی ریسیپٹرز کی مدد سے ہم دن اور رات میں مختلف رنگوں یا اندھیرے کا احساس کرتے ہیں۔ واضح رہے ریٹینس پگمینٹوسا بصارت کی وہ بیماری ہے۔ جس میں آنکھ کے مرکز میں پردہ چشم متاثر ہونے سے مریض کو رات میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
رپورٹ کے مطابق نیورو پروستھیٹک دنیا بھر میں ایک ابھرتا ہوا سائنسی میدان ہے۔ جس میں ایسے آلات کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے۔ جو نظام اعصاب سے منسلک ہوکر غیر فعال انسانی اعضا کو دوبارہ فعال کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال کوکلیئر امپلانٹ ہے۔ جسے عشروں سے سماعت کی بحالی کیلئے کان میں نصب کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر رؤمر کے مطابق بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے کا ایک قابل عمل طریقہ یہ ہے کہ ریٹینا میں وولٹیج پلس بنانے کیلیے الیکٹروڈز استعمال کیے جائیں۔ لیکن اس کیلئے آنکھ میں وائرنگ کرنا ہوگی۔ جو ایک انتہائی پیچیدہ سرجری ہے۔ ڈاکٹر رؤمر نے بتایا کہ چھوٹے سائز کے سولر پینلز وائرنگ اور الیکٹروڈز کا ایک بہتر متبادل ہو سکتے ہیں۔ سولر پینل آنکھ کی پتلی کے ساتھ نصب کیے جائیں تو یہ سورج کی روشنی کو الیکٹرک پلس میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ پلسز دماغ تک پہنچ کر وہاں ’’ویڑول فیلڈ‘‘ بناتے ہیں۔ جس سے بصارت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر رؤمر مزید بتاتے ہیں کہ یہ چھوٹے سولر پینلز پورٹیبل ہیں اور آنکھ میں ان کو لگانے کیلئے کیبلز یا وائرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق اس تکنیک پر دنیا بھر میں کئی سائنسدان کام کر رہے ہیں۔ مگر زیادہ تر محققین نے اپنے تجربات کیلئے سیلیکون سے بنے آلات استعمال کیے ہیں۔ جبکہ ان کی توجہ کا مرکز دیگر سیمی کنڈکٹر مرکبات جیسے گیلیئم آرسینائڈ اور گیلیئم انڈیم فاسفائیڈ پر ہے۔ جن کی خصوصیات کو بآسانی اور حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دماغ میں نیورونز کو متحرک کرنے کیلئے زیادہ وولیٹیج کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ گیلیئم آرسینائڈ کے تین سولر سیلز سے اتنا وولٹیج پیدا کیا جاسکتا ہے۔ جو دماغ تک سگنل یا پلس پہنچا سکے۔ وہ بتاتے ہیں اب تک ان کی ٹیم نے لیبارٹری میں دو سولر سیلز کو تقریبا ایک مربع سینٹی میٹر کے رقبے پر ایک دوسرے کے اوپر لگایا ہے۔ جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں۔
ڈاکٹر رؤمر کے مطابق جب ان کی ٹیم دو سولر سیلز کے ساتھ ان تمام مراحل کو کامیابی سے عبور کرلے گی تو اس کے بعد پھر تین سولر سیلز جوڑنے پر کام کیا جائے گا۔ جانوروں پر مرحلہ وار ٹیسٹنگ کے بعد جب یہ ڈیوائس انسانوں کیلئے دستیاب ہوگی تو اس کا ممکنہ سائز دو مربع ملی میٹر تک ہو گا۔
تین سولر سیلز پر مشتمل یہ ڈیوائس جب آنکھ میں نصب کی جائے گی تو غالب امکان ہے کہ سورج کی روشنی پڑنے سے شاید ریٹینا کے غیر فعال ریسیپٹرز دوبارہ کام شروع نہ کریں۔ لہذا ان افراد کو مخصوص گوگلز عینک استعمال کرنا ہوں گے۔ جو سورج کی روشنی کی شدت کو ضروری حد تک بڑھائیں گے۔ تاکہ نیورونز کو متحرک کیا جا سکے۔