2018ء میں جب جھرلو پھیرا گیا تو ہم نے اس کا مقابلہ کیا،فضل الرحمان

پشاور(اُمت نیوز)مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ کچھ قوتیں عوام کے ووٹ کے حق کو پامال کرتی ہیں بلکہ یرغمال بنا لیتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سربراہ جےیوآئی مولانا فضل الرحمان کا جمعیت علمائے اسلام ضلع پشاور ،مہمند اور خیبر کے ذمہ داران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ کچھ قوتیں عوام کے ووٹ کے حق کو پامال کرتی ہیں بلکہ یرغمال بنا لیتی ہیں، 2018ء میں جب جھرلو پھیرا گیا تو ہم نے میدان میں اتر کر اس کا مقابلہ کیا، 1977ء جب عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو اس دھاندلی کیخلاف تحریک کی قیادت بھی جمعیۃ علماء اسلام نے کی تھی، دھاندلی کو اگر مسترد کیا ہے تو جمعیت علماء اسلام نے کیا ہے۔

مولانا فضل رحمان کا مزیدکہنا تھا کہ مجھے سیاسی جماعتوں پر تعجب ہے کہ انہیں گزشتہ انتخابات والا مینڈیٹ ملا ہے لیکن اس بار کے انتخابات ان کے نزدیک جائز ہوگئےہیں،کچھ جماعتیں اس عنوان سے آواز اٹھارہی ہیں لیکن ان کے موقف میں وضاحت نہیں ہے، قیادت ایک نہیں ہے،نہ ہی ان کی آواز ایک ہے، جب تک سیاسی جماعتوں میں یکسوئی نہیں ہے اس وقت تک جمعیت علماء اسلام اپنے ہی پلیٹ فارم سے اس تحریک کو آگے بڑھائے گی، جمعیت علماء اسلام تنہا ہی ایوان نہیں میدان کو بھرے گی اور جمعیت علماء اسلام اس کی طاقت رکھتی ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے ہدایات جاری کیں کہ جمعیت علماء اسلام کی بنیادی تنظیمیں عوام تک پہنچیں انہیں بیدار ،ملک کی حالت سے آگاہ کریں اور انہیں میدان میں نکالیں، جمعیت علماء اسلام ہمارے پاس اکابر کی امانت ہے، ان کی آزادی کی تحریک آج ہمارے پاس امانت ہے،جمعیت علماء اسلام عوام کی جماعت ہے اور عوام کی قیادت کررہی ہے،ہندوستان دنیا کی سپر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے جبکہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچنے کی تگ و دو کررہا ہے، جو قوتیں آج ہمارے ملک کی غلامی کی ذمہ دار ہیں ان کی گرفت کو کمزور کردیا جائے۔

فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور مظالم پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 40ہزار سے زیادہ معصوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، ہسپتال تباہ ہوچکے ہیں،خوارک اور امداد پہنچنے نہیں دی جارہی ہیں، کیمپوں میں پناہ گزینوں پر بمباری کی جارہی ہے اس کے باوجود امریکا اور مغرب انسانی حقوق کے علمبردار بنے ہوئے ہیں،ہمیں آزادی و حریت کے جذبے کے ساتھ چلنا ہے، ہمیں سر اٹھا کر چلنا ہے، لوگوں کو میدان میں نکالیں اور بتائیں کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔