حلیم عادل اور راجا اظہر سمیت دیگر رہنمائوں پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے، فائل فوٹو
حلیم عادل اور راجا اظہر سمیت دیگر رہنمائوں پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے، فائل فوٹو

پی ٹی آئی کراچی کے تمام گرفتار رہنما و کارکنان رہا

سید حسن شاہ:
سانحہ نو مئی کے مقدمات میں نامزد پی ٹی آئی کراچی کے تمام رہنما و کارکنان ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ عدم حاضری سے 176 ملزمان پر فرد جرم بھی عائد نہیں ہوسکی۔ پی ٹی آئی رہنمائوں حلیم عادل شیخ اور راجا اظہر سمیت دیگر رہنمائوں و کارکنان پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے۔ انصاف لائرز فورم سندھ کے صدر ظہور محسود ایڈووکیٹ کے مطابق مقدمات کے حساب سے بعض کارکنان کی ایک لاکھ روپے میں ضمانت ہوئی۔ کسی کو 50 ہزار یا 30 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں پر رہائی مل چکی۔ چند ملزمان نے زر ضمانت خود بھرا۔ جبکہ کچھ ملزمان کی ضمانت کی رقم پارٹی نے ادا کی۔

9 مئی 2023ء کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنان نے جلاؤ گھیراؤ، ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ، املاک کو نقصان پہنچانے سمیت رینجرز اور ٹریفک پولیس چوکی سمیت متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کیا تھا۔ جس پر کراچی بھر میں پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان کے خلاف مختلف تھانوں میں 34 مقدمات درج کیے گئے تھے اور بڑی تعداد میں کارکنان کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں۔

پولیس نے ان مقدمات میں تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی، عمران اسماعیل، شاہ نواز جدون، سعید اعوان، آفتاب حسین صدیقی، خرم شیر زمان، حلیم عادل شیخ، عالمگیر خان، فہیم خان، ارسلان تاج، راجا اظہر، عدیل احمد خان، مراد سعید، اکرم چیمہ، عمران قریشی، مبشر حافظ الحق، ریاض اللہ، شاہد انصاری، حمزہ علی، بشارت حسین، بشیر حسین، عبدالصمد، اسد گجر، شہباز مرزا، احمد اور حنیف سواتی سمیت دیگر کو نامزد کیا تھا۔ ان مقدمات میں سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل اور اکرم چیمہ کو بری کردیا گیا ہے۔

سانحہ 9 مئی کو شاہراہ فیصل پر رینجرز چوکی کو نذر آتش کرنے والے باپ بیٹے کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ جو اعتراف جرم کر چکے ہیں۔ رینجرز چوکی جلانے والے عبدالحمید نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس نے پی ٹی آئی قیادت کے حکم پر رینجرز چوکی کو آگ لگائی اور اس کے بیٹے نے ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کی۔ ملزم چوکی جلانے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو للکارتا بھی رہا۔ تاہم سانحہ 9 مئی کے 34 مقدمات میں نامزد پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکنان سمیت 175 سے زائد ملزمان ضمانت حاصل کرچکے ہیں۔

ان کے خلاف مقدمات انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں سمیت ٹرائل کورٹس میں زیر سماعت ہیں۔ جہاں پولیس حکام مقدمات کے چالان جمع کراچکے ہیں۔ لیکن اب تک ملزمان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی۔ جس کی وجوہات میں اکثر سماعتوں پر کسی نہ کسی ملزم کا عدالت سے غیر حاضر ہونا ہے۔ جبکہ فرد جرم عائد ہونے کیلئے تمام ملزمان کی حاضری ضروری ہے۔ اکثر سماعتوں پر ملزمان کی عدم حاضری کی وجہ سے تاریخیں مل جاتی ہیں۔ اس طرح سانحہ 9 مئی کو 11 ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک مقدمات کا ٹرائل شروع نہیں ہوسکا۔ ملزمان پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد ان کا ٹرائل شروع کیا جائے گا۔ ٹرائل کے دوران گواہان کے بیانات عدالت میں ریکارڈ کیے جائیں گے۔

انصاف لائرز فورم سندھ کے صدر ظہور محسود ایڈووکیٹ نے رابطہ کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس وقت کراچی کی جیلوں میں پی ٹی آئی کا کوئی رہنما اور کارکن بند نہیں۔ تمام کارکنان کی ضمانتیں کروالی ہیں۔ رہنمائوں و کارکنان کے خلاف سانحہ 9 مئی کے 34 مقدمات درج کیے گئے تھے اور ان میں 176 کارکنان کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

پہلے ہم نے کارکنان کی ضمانت کیلئے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں سمیت ٹرائل کورٹ سے رجوع کیا۔ جہاں کارکنان کی ضمانتیں مسترد کردی گئیں۔ پھر ہم نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو وہاں سے بڑی تعداد میں کارکنان کی ضمانتیں منظور ہوئیں۔ جس کے بعد دیگر کارکنان کی ضمانتوں کیلئے دوبارہ ٹرائل کورٹ سے رجوع کیا اور پھر وہاں سے ضمانتیں ملیں۔ انہوں نے بتایاکہ الگ الگ مقدمات ہیں۔ کچھ دہشت گردی کے ہیں تو کچھ میں دہشت گردی کی دفعات نہیں۔ اس لئے مقدمات کے حساب سے بعض کارکنان کو ایک لاکھ روپے اور کسی کو 50 ہزار اور یا 30 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں پر رہا ملی۔

کئی کارکنان نے ضمانت کی رقم خود ادا کی۔ جبکہ جن کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ان کی رقم پارٹی نے ادا کی۔ یہ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ جہاں مقدمات کا چالان جمع ہوچکا اور فرد جرم عائد ہونا باقی ہے۔ فرد جرم عائد ہونے کیلئے تمام ملزمان کی حاضری ضروری ہے۔ تاہم ہر مقدمہ میں کئی کارکنان کو نامزد کیا گیا ہے اور ہر سماعت پر کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی وجہ سے پیش نہیں ہوپاتا۔ اس لئے تاریخ مل جاتی ہے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’سانحہ 9 مئی کیس میں ہمارے 100 سے زائد کارکنان کو تھری ایم پی او کے تحت سندھ کی مختلف جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔ ہم نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو تمام کارکنان کو واپس کراچی لایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انصاف ہائوس ڈی سیل کرانے کی درخواست بھی ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی۔ جو منظور کرلی گئی‘‘۔