10 گرام سونے کی قیمت 686 روپے اضافے سے 2 لاکھ 7 ہزار 47 روپے ہوگئی، فائل فوٹو
10 گرام سونے کی قیمت 686 روپے اضافے سے 2 لاکھ 7 ہزار 47 روپے ہوگئی، فائل فوٹو

گولڈ لیبارٹریوں کی آڑ میں کالے دھندے کا انکشاف

عمران خان:
کراچی میں خالص سونے اور طلائی زیورات کو پگھلا کر انہیں بسکٹ (بلین) کی شکل دینے والی لیبارٹریوں کی آڑ میں منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کا بڑا نیٹ ورک سرگرم ہے۔ اس میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کے بجائے دھندے کو ایف آئی اے، سی ٹی ڈی سمیت متعلقہ اداروں کی کالی بھیڑوں نے کروڑوں روپے آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

ذرائع سے موصول اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے کراچی میں معروف زمانہ حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ نیٹ ورک سے جڑی سونے کی لیبارٹری پر بڑی چھاپہ مارکارروائی کی گئی۔ ذرائع کے بقول اس کارروائی میں 29 کروڑ روپے مالیت کی پاکستانی اور دیگر ممالک کی کرنسی موجود پائی گئی۔ ساتھ ہی کروڑوں روپے مالیت کا 2 کلو سونا بلین (Bullion) یعنی خام سونے کی شکل میں ملا۔

ذرائع کے مطابق یہ نیٹ ورک بدنام زمانہ حوالہ ایجنٹ حنیف رنگیلا، سونے کی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے کاروبار سے کراچی اور دبئی میں منسلک عرفان لمبا اور حاجی امان اللہ کی زیر سرپرستی چلایا جا رہا تھا۔ مذکورہ کارروائی کے دوران ہی مبینہ طور پر اس گروپ کے حوالے سے معاملات طے کرنے کے لئے ٹیم کو ساتھ لے کر جانے والے انسپکٹر کے ساتھ رابطے کئے جانے لگے۔ بعد ازاں اس معاملے میں مبینہ طور پر 5 کروڑ روپے کے عوض 23 کروڑ روپے مالیت کی کرنسی اور 2 کلو سونا چھوڑ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہاتھ آئے ہوئے 4 اہم ملزمان جنہیں حراست میںلے لیا گیا تھا، ان کو بھی چھوڑ دیا گیا۔ تاہم بعد ازاں اس معاملے میں ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ کرنسی کے ساتھ اس نیٹ ورک کے 2 معمولی ملازمین کو ظاہر کرکے مقدمہ کردیا گیا۔

ذرائع کے بقول اس معاملے کی اطلاع ایف آئی اے زونل ڈائریکٹر کراچی، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائوتھ آفس کے ساتھ ہی ڈی جی آفس اسلام آباد کو مختلف ذرائع سے موصول ہوچکی ہے، جس پر انکوائری کی جا رہی ہے تاکہ اصل حقائق کو سامنے لایا جاسکے۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ کی جانب سے جب گولڈ مارکیٹ کی ایک اہم شخصیت سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ، ایسے ایک معاملے کی باز گشت پوری گولڈ مارکیٹ اور سونے کے کاروبار سے منسلک تاجروں میں پھیلی ہوئی ہے جس پر چہ مگوئیاں جاری ہیں۔

گولڈ مارکیٹ اور سونے کی لیبارٹریوں میں جاری اسمگلنگ، کالے دھن کی کھپت، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے گزشتہ 4 برسوں کی کوششوں کے باجود اب تک ملک میں موجود صرافہ بازوں کی ہزاروں دکانوں، صرافہ لیبارٹریوں کو ٹیکس دائرہ میں لانے کے لئے رجسٹرڈ نہیں کیا جاسکا۔ اور نہ ہی ان دکانوں اور لیبارٹریوں پر روزانہ ہونے والی سونے کی خرید و فروخت کا درست تخمینہ لگانے کے لئے انہیں پوائنٹ آف سیل یعنی پی او سسٹم سے منسلک کیا جاسکا ہے۔

ایف بی آر ذرائع کے بقول اس کی ایک وجہ وفاقی وزارت خزانہ اور ایف بی آر حکام کی سستی ہے۔ جبکہ دوسری بڑی وجہ ملک کے ہزاروں ان بااثر افراد کا دبائو ہے جو اپنی اصل دولت سامنے آنے کے خوف سے سونے کے لین دین کو دستاویزی نہ بنانے پر مصر ہیں۔
ذرائع کے مطابق ملک میں سونے کی خرید و فروخت پر بیچنے اور خریدنے والے افراد پر 17 فیصد سیلز ٹیکس وصول نہ ہونے کی وجہ سے ملکی خزانہ روزانہ کروڑوں روپے اور سالانہ اربوں روپے کے محصولات سے محروم ہورہا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاروں کی خود غرضی اور صرافہ تاجروں کی سٹہ بازی کے نتیجے میں فی تولہ سونا ڈیڑھ لاکھ روپے تک پہنچنے کی وجہ سے عام شہریوں کی دسترس سے باہر ہوچکا ہے۔ جبکہ جیولری کی دکانوں سے ہونے والی خرید وفروخت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور سونے کا 90 فیصد کاروبار، بسکٹ کی صورت میں لیبارٹریوں تک محدود ہوگیا ہے۔

ذرائع کے بقول سونے میں سرمایہ کاری کرنے والے زیورات کے بجائے بسکٹ کی صورت میںکرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ زیورات ڈیڑھ لاکھ روپے تولہ خریدنے کے بعد بیچنے والے 15 فیصد کٹوتی کے بعد رقم واپس ملتی ہے۔ تاہم طلائی بسکٹ خریدنے والا جب فروخت کرنے جاتا ہے تو اسی قیمت میں بک جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سونے کی لیبارٹریوں میں اس وقت ’’لیبو اور دیبو ‘‘ یعنی لینا اور دینا کا کام عروج پر ہے اور کراچی صدر کی مارکیٹ اس کا گڑھ بن چکی ہے۔ جہاں سونے کا لین دین بغیر کسی رسید اور منی ٹریل کے ریکارڈ کے بغیر کیا جاتا ہے۔ اربوں روپے کا یہ کاروبار اسٹیٹ بینک، سیکورٹی ایکسچینج کمیشن اور ایف بی آر کی مانیٹرنگ کے بغیر ہی کیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے بقول اس وقت طلائی بسکٹس میں سرمایہ کاری بڑھ چکی ہے کہ ہزاروں افراد یہ بسکٹ لے کر رکھ رہے ہیں۔ جبکہ لیبارٹری مالکان روزانہ طلائی بسکٹس کی سیل و پرچیز کرکے لاکھوں روپے منافع وصول کر رہے ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق کئی برسوں سے سونے کی درآمد اور برآمد نہ ہونے کے باوجود سونا کھیپوں میں اسمگل کرکے لایا جا رہا ہے۔ جسے بسکٹ میں تبدیل کرکے سرمایہ کار چھپا کر رکھ رہے ہیں۔ جبکہ یہی بیرون ملک خفیہ ادائیگیوں کے لئے بھی اسمگل کرکے دبئی اور دیگر ممالک میں منتقل کیا جا رہا ہے، جس کے لئے ایئر پورٹ پر شعبہ بین الاقوامی آمد اور روانگی پر رشوت دی جاتی ہے۔

چار برس قبل فنانشل ٹاسک فورس کے مطالبات کی روشنی میں ایف بی آر کی جانب سے ملک بھر کے جیولرز کے مالی لین دین کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ جس میں ملک بھر کے جیولرز اور لیبارٹری مالکان کو سب سے پہلے اپنے کاروبار کو ایف بی آر میں رجسٹرڈ کروانے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ اور اس کے بعد انہیں 20لاکھ روپے سے زائد کے ہر لین دین کا ریکارڈ ایف بی آر کو فراہم کرنے کے ساتھ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی بشمول قید کی سزا اور بھاری جرمانوں کا سامنا کرنے کا انتباہ کیا گیا۔ اس کے لئے ایف بی آر میں قوانین اور ایس او پیز بھی بنا دی گئیں ۔

ذرائع کے بقول ان سفارشات کے بعد عملی اقدامات کے لئے 2021ء کی آغاز میں ہی ملک بھر کے ہزاروںجیولرز کو ایف بی آر میں اپنے مکمل کوائف کے ساتھ رجسٹریشن کروانے کی ہدایات جاری کی گئیں، جس کے لئے ایف بی آر میں ایک ڈائریکٹوریٹ قائم کرکے اس کے اطلاق کے لئے کام شروع کردیا گیا۔ ابتدائی طور پر انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے سیکشن 6 اے کے تحت ملک بھر کے 56 ہزار سے زائد جیولرز اور اسٹیٹ ایجنٹس کو رجسٹریشن کے لئے نوٹس جاری کئے گئے۔ تاہم اب تک عملی طور پر 5 فیصد کاروبار کو بھی رجسٹرڈ نہیں کیا جاسکا ہے۔ حالانکہ اس ضمن میں بنائے گئے قوانین کے تحت خود خلاف ورزی کرنے والے سونے کے تاجر، جبکہ ضرورت پڑنے پر اداروں کو مشکوک صارف کی معلومات فراہم نہ کرنے پر 10 کروڑ روپے تک جرمانہ ادا ہو سکتا ہے۔