اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ہم اپنے باپ کا بھی زور زبردستی والا رویہ نہیں مانیں گے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کل جس طرح خواجہ آصف نے اسپیکر کے ساتھ بات کی ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، خواجہ آصف 80 سال کے بزرگ اور سینئر پارلیمنٹیرین ہیں لہٰذا انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے اورانہیں برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اسد قیصر نے فاٹا سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر فاٹا کو ٹیکس چھوٹ دی تھی اور یہ سہولت انہیں اس لیے دی گئی تھی تاکہ وہ ملک کے دیگر علاقوں کی برابری کرسکیں، لیکن افسوس! انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا ایک جنگ زدہ علاقہ رہا ہے، وہاں اب تک انہیں کوئی ہسپتال یا کالج نہیں دیا گیا، اس علاقے میں کسی قسم کے ترقیاتی کام بھی نہیں ہورہے، جس کا مطلب وہاں بے روزگاری پیدا اورعوام میں مایوسی پیدا ہوگی، ایسے میں وہ دیگر علاقوں کی برابری کیسے کرسکتے ہیں اور اب اگر ان پر ٹیکس لاگو کردیا گیا تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ فاٹا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے، حالانکہ میرے پاس تمام اعدادو شمار موجود ہیں، فاٹا سے تقریباً 70 ارب روپے ٹیکس کی مد میں وصول کیے جارہے ہیں، فاٹا کو ضم کرتے وقت جو وعدہ کیا گیا تھا کہ 3 فیصد وفاق اور صوبہ دے گا جس میں سے ابھی تک ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا۔
اسد قیصر نے اسپیکر سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر ایک کمیٹی بنائیں تاکہ اس پر بحث کی جاسکے اور اس میں فاٹا کی نمائندگی بھی شامل کی جائے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے گزشتہ روز خواجہ آصف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف نے گزشتہ روز میرے دادا اور میرے خاندان کا نام لیکر غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال کیا، انہوں نے شاید تاریخ درست طریقے سے نہیں پڑھی، اس لیے کچھ درستگی کرنا چاہتا ہوں۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ان کے اطراف میں بیٹھے افراد مختلف جماعتوں میں شامل رہے ہیں جو اب مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں، خواجہ آصف صاحب ریحانہ ڈار صاحبہ سے شکست کھانے کے بعد بوکھلائے ہوئے ہیں، ’’ان کے والد‘‘، اس دوران سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے انہیں مزید بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ اس طرح نہ کریں جو لوگ اس دنیا میں نہیں ہیں ان کا تذکرہ نہ کریں اور اجلاس کو آگے چلنے دیں۔
رہنما تحریک انصاف علی محمد خان نے کہا کہ میں پاکستان کی بات کرنا چاہتا ہوں، کبھی ہتھکڑی ڈال کر نوازشریف کی طرح ملک سے دربدر کردو، کبھی بینظیر کی طرح جس کے والد کو پھانسی دی گئی اسے ملک بدر کردیا گیا، وہی بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں قتل کردیا گیا، اسی راولپنڈی میں میں لیاقت علی خان جو قائداعظم کے ساتھی تھے ان کو قتل کردیا گیا ہم بھی پاکستان بنانے والے ہیں اور آپ بھی پاکستان بنانے والے ہیں تو پھر کیوں ہم سرجھکا کر چلیں۔
انہوں نے کہا کہ طالع آزما پرویز مشرف نے ہتھکڑیاں لگا کر نوازشریف کو ملک بدر کیا، بانی پی ٹی آئی جو یہاں قائد ایوان تھا اس کو چار گولیاں مارکر جیل بھیج دیا گیا، آج بھی ہم اپنے قائد سے نہیں مل سکتے،امید کرتا ہوں کہ یہ ایوان اپنے سابق قائد ایوان کیلئے کھڑا ہو گا۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ یہ ایوان تفتیش کرے گا کہ جو کیمرے ججوں کے بیڈرومز میں لگ سکتے ہیں ان کیمروں سے بینظیر کے قاتل کیسے بچ گئے، جن کو قائد پسند نہیں وہ کسی اور ملک چلے جائیں، میں سپیکر کو کہتا ہوں کہ وہ شروعات کرائیں، میرے داد قائداعظم کے ساتھی اور تحریک پاکستان کے سپاہی تھے، لیکن انہیں ایوب خان کی کابینہ میں نہیں ہونا چاہئے تھا، ہم سب کو اپنی غلطیاں ماننی پڑیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو اس بات کی سزا دی جارہی ہے، جو ہر اس پاکستانی کو دی جاتی ہے جو آزاد پالیسیاں بنانے کی کوشش کرتا ہے، اسی جرم میں بانی پی ٹی آئی جیل میں پڑے ہیں، جب آپ اپنی حدود میں رہیں گے تو ہمارے سر کا تاج ہیں جب آپ اس طرف آئیں گے تو احتجاج بھی ہوگا۔
رہنما تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہےکہ بشریٰ بی بی کا توشہ خانہ کیس سے دور دور تک تعلق نہیں تھا، توشہ خانہ کیس میں بشریٰ بی بی کو 15 سال قید سنا دی گئی، ہم سب کو عمر ایوب اور ان کے خاندان پر فخر ہے، اگر آپ عوام کے نمائندےہو تو آپ عوام کا سوچتے ہیں، تحریک انصاف کی خواتین رہنما آج بھی جیلوں میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمر ایوب اور ان کے خاندان پر کبھی کرپشن کے الزامات عائد نہیں کیے گئے، آپ ڈان لیکس، میمو گیٹ اور سپریم کورٹ پرحملہ کرنے والے ہیں۔
بیرسٹر گوہر کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سمیت ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں پر سینکڑوں مقدمات بنائے گئے، ہم سے انتخابات میں نشان بھی چھین لیا گیا ، نشان چھن جانے کے باوجود ووٹرز نے ہمارے نشانات ڈھونڈ کر ہمیں ووٹ دیئے ، کیا تحریک انصاف پاکستان کی مقبول جماعت نہیں ؟۔
اس موقع پررہنما پیپلز پارٹی عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ صدر زرداری نے کہا کہ آئین سپریم ہونا چاہیے،صدر کے خطاب کو کاپی پیسٹ کہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے صدارتی خطاب پر صرف 33 سیکنڈز گفتگو کی، صدر زرداری وہ شخص ہیں جن کے منہ سے ہمیشہ اپوزیشن کیلئے پھول جھڑتے ہیں، صدر زرداری کی اہلیہ کو شہید کیا گیا لیکن انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔
عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ صدر زرداری نے واضح کہا کہ جمہوریت کا تسلسل ہونا چاہیے، ہمیں اپنے اختلافات کو بھلا کر مل کر بیٹھنا ہوگا، صدر زرداری نے خطاب میں کہا کہ دیگر ممالک سے اچھے تعلقات بنانے ہیں، آپ نے اسے کاپی پیسٹ کہہ دیا۔
رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ صدرنے کہا کہ چین ہمارا بہترین دوست ہے، صدر زرداری نے کشمیر اور فلسطین کی بات کی، بینظیر بھٹو نے ہمیشہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ترجیح دی۔
ان کا کہنا تھا کہ حالات اس نہج تک نہ لے جائیں کہ کل کو آپ کو کوئی سننے والا نہ ہو،آپ کے معززین ماضی میں اس ایوان میں ہمیں نہ دیکھتے تھے،نہ یہ مائیکس آن ہوتے تھے، غلطیاں انسان ہی کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے، اگر آپ اپنی غلطی مان لیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں،نوجوان نسل کو آپ سے امیدیں تھیں، کچھ ڈھکی چھپی ہمیں بھی تھیں،اسد عمر صاحب ٹی وی پر آکر کہتے تھے کہ ان کوکرسی پر بٹھانے سے معیشت اگلے دن ٹھیک ہوجائے گی، سب کے اپنی لیڈر شپ کے ساتھ جذبات ہوتے ہیں۔
رہنما پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں کہ آئی ایس پی آر کو پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہیے تھی، آپ نے اپنے دور میں توآئی ایس پی آر کے ساتھ جوائنٹ پریس کانفرنس کی تھیں، اب کہتے ہیں 9 مئی سے ہمارا لینا دینا نہیں،ملک صرف سیاستدان چلا سکتے ہیں کھلاڑی نہیں، بانی پی ٹی آئی کو پی سی بی کا چیئرمین بنائیں یا کوئی اور عہدہ دے دیں۔
عبدالقادرپٹیل کے اظہار خیال کے دوران اپوزیشن ارکان نے خوب شور شرابا کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ سے پوچھتا ہوں وہ کونسی موٹیویشن تھی کہ بانی پی ٹی آئی کے گرفتار ہونے پر یہ ریاستی ادارے پر چڑھ دوڑے،بی بی کو شہید کیا گیا تو کسی ایک پی پی لیڈر کا نام بتا دیں جس نےکارکنوں کو شرپسند کارروائیوں کیلیے اکسایا ہو۔