قُرآنِ کریم سے استفادہ کے آداب ۔امجد بٹ ۔ مری

امجد بٹ ۔ مری
(1) سب سے افضل طریقہ تو یہ ہے کہ آپ کو عربی زبان پر مادری زبان جیسی دسترس ہو تا کہ زبانوں کے تراجم سے پیدا ہونے والی کمزوریوں سے بچا جا سکے اور اللّٰہ پاک کی باتیں تراجم کے بجائے براہِ راست سمجھ آ سکیں۔
(2) ۔ عربی کے علاوہ آپ جس دوسری زبان میں قُرآن پڑھ رہے ہیں اس زبان پر بھی دسترس ترجمہ سمجھنے کے لئے ناگزیر ہے۔
(3) ۔ قُرآن پاک کو سمجھنے کے لئے عرب قبائل کی تاریخ ، رسوم و رواج ، ثقافت اور روایات سے آگاہی بھی ضروری ہے تا کہ سورتوں کے شانِ نزول یا پس منظر کو سامنے رکھ کر قُرآن پاک سمجھنے میں آسانی رہے۔
(4) ۔ عربی زبان و ادب اور شاعرانہ مزاج کو سمجھ کر بھی قُرآنی اندازِ بیان سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔
(5) ۔ اِنسان کی لکھی ہُوئی کتب کے ابواب کسی نہ کسی مخصوص موضوع کو منظّم شکل میں پیش کرتے ہیں لیکن قرآنِ مجید اس کائنات کے مختلف اہم ترین موضوعات کا مختصر مجموعہ ہے جِس میں اِنسانی زندگی کی مفصّل راہنمائی کے ساتھ ساتھ کائنات کے رازوں کو سمجھنے کے لئے اشارۃً راہنمائی دے دی گئی ہے تا کہ انسان اپنی تحقیق ، تدبّر اور بصیرت سے تفصیلات کی کھوج لگا سکے۔
قرآنِ کریم میں "تصریفِ آیات” کی اصطلاح کے مطابق ایک ہی موضوع کو مختلف مقامات پر بیان کے ذریعے بات کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اگر کسی موضوع پر بیان کی گئی آیات کو یکجا کر کے پڑھ لیں تو ہمیں قُرآن فہمی کا مسئلہ درپیش نہیں رہے گا ۔
(6) ۔ آج تک اُردُو زبان میں چھپنے والے 83 اور دیگر مُلکی و بین الااقوامی زبانوں میں چھپنے والے 85 تراجم کے مترجمین کی کاوشوں اور نیّت پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن بد قسمتی سے ان کی اکثریت کو عربی زبان پر مادری زبان جیسی دسترس نہ تھی اور اُنہوں نے اپنی لسانی قابلیت کی بنیاد پر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کیا لہٰذا یہ تراجم عربی کا بلیغ مفہوم ادا نہ کر سکے۔ جب ہم ان تراجم کے ذریعے قُرآن سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو دراصل ہم وہ مفہوم سمجھ رہے ہوتے ہیں جو مترجم کو اپنی دانست کے مطابق سمجھ آیا تھا۔
سولہویں سورت کی آیت 93 کا ترجمہ اکثر مترجمین نے یہ کیا ہے "اللّٰہ جِسے چاہتا ہے گُمراہ کر دیتا ہے اور جِسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے” لیکن جب عربی اصطلاح”تصریفِ آیات” کے مطابق اس موضوع کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہ گُمراہی اور ہدایت کے قوانین طے کر کے راہنمائی دے دیتا ہے اور یہ انسان ہے جو اپنی اپنی دانست رغبت اور میلان کے باعث گُمراہی یا ہدایت اختیار کرتا ہے۔
(7) ۔ اِس طرح چوتھی سورت کی آیت نمبر 82 میں قرآنِ کریم کو اللّٰہ پاک کی ایسی کتاب کہا گیا ہے جِس میں کوئی اِختلاف اور تضاد نہیں ۔ اگر ہمیں کہیں کوئی اِختلاف یا تضاد نظر آئے تو وہ ہمارے تدبّر میں کوتاہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور اِس تضاد کو موضوع کی تمام آیات کو یکجا کر کے ذرا سے غورو فکر کے بعد حل کیا جا سکتا ہے۔
(8) ۔ اِس ضمن میں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیئے کہ وحی کے ذریعے جو نظامِ زندگی انبیاء کو ملتا تھا وہ دین کہلاتا تھا جبکہ اِس میں اِنسانی خیالات کی آمیزش اِسے دین سے مذہب بنا دیتی ہے اور ان مذاہب کے پیشواء اِس مذہب کو دین کے نام پر اللّٰہ پاک سے منسوب کرتے ہیں اور جو کوئی بھی اِن مذاہب کی چیرہ دستیوں اور آمیزش کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے اُسے اسلاف کے دین کا دُشمن قرار دے دیا جاتا ہے اور پھر عقائد کے خلاف فتووں کی دُکانیں کھُل جاتی ہیں۔ آج ہمارے درمیان فِرقوں کی جنگ کا سبب بھی اللّٰہ پاک کا دِین نہیں بلکہ تحریف شُدہ مذہب ہے۔
اللّٰہ پاک کا شُکر ہے کہ دُنیا کی واحد غیر تحریف شُدہ آفاقی کتاب کا اُس نے ہمیں وارث بنایا ہے اور اِس وراثت کا حق ادا کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جب تک ہم ذاتی عقائد کی عینک نہیں اُتارتے ہمیں قُرآن پاک سے من پسند آیات کی حمایت حاصل کرنے کی عادت نہیں جائے گی۔” لا اِلہٰ” کا مفہوم ہی یہی ہے کہ ہمارے ذہنوں میں پہلے سے موجود عقائد کے بُتوں کو توڑا جائے ، غیر خُدائی تعلیمات و عقائد کی نفی کی جائے اور قُرآن کریم سے راہنمائی کا سب سے اعلیٰ طریقہ یہی ہے کیونکہ ہمارے آخری نبی نے بھی اپنے اسلاف کے فِکری بُتوں کو پاش پاش کر کے ہی نئے نظام کی داغ بیل ڈالی تھی۔