کمیٹی دو دنوں میں معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گی، فائل فوٹو
کمیٹی دو دنوں میں معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گی، فائل فوٹو

کراچی میں زیادتی کے واقعات میں اضافہ

حسام فاروقی:
کراچی میں زیادتی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف رواں ماہ ایسے چھ کیس سامنے آچکے ہیں، جن میں ایک 25 سالہ نامعوم لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل بھی کیا گیا۔ مقتولہ کی لاش ایک فلاحی ادارے کے سرد خانے میں رکھی ہوئی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق زیادتی کے بہت سے کیس بدنامی کے خوف سے رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان واقعات میں تیزی کی وجہ ٹک ٹاک سمیت مختلف سوشل ایپس کے ذریعے نوجوان نسل کی فحش مواد تک باآسانی رسائی بھی ہے۔ اسے روکنے کے لیے متعلقہ اداروں کو موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

رواں ماہ پہلا واقعہ 3 مئی کو ملیر سٹی تھانے کی حدود میں پیش آیا۔ علاقہ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم شان حیدر زیدی نے جعفر طیار سوسائٹی میں 16سے17سالہ لڑکی کو راشن دینے کے بہانے بلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد وہ متاثرہ لڑکی کو بلیک میل کرکے مزید کئی بار زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔ ایک روز ملزم نے لڑکی کو بلا کر اپنے دوستوں کو بھی اس جرم میں شامل کرنے کی کوشش کی لیکن لڑکی ان کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم شان اور اس کے ساتھی جو رضویہ اور انچولی میں رہتے ہیں، ان کا ایک منظم گینگ ہے جو غریب خواتین کو راشن کے بہانے بلا کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ دوسرا واقعہ 4 مئی کو شرافی گوٹھ کے علاقے میں پیش آیا۔ شرافی گوٹھ کے علاقے ملیر بند شریف باغیچہ کے قریب سے ایک 25 سالہ لڑکی کی تشدد زدہ لاش ملی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لاش کی اطلا ع پولیس کو نزدیک میں کام کرنے والے کچھ مزدوروں نے دی تھی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتولہ کو پہلے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر تشدد کرکے قتل کردیا۔ ڈیڈ باڈی کے پاس سے کوئی بھی شناختی دستاویزات نہیں ملیں۔ مقتولہ کی شناخت بائیو میٹرک کے ذریعے بھی نہیں ہو پائی ہے۔ پولیس نے امانت کے طور پر لاش کو ایک فلاحی تنظیم کے سرد خانے میں رکھوایا ہے۔ اور مقتولہ کے ورثا کی تلاش کا عمل جاری ہے۔ تیسرا واقعہ 8 مئی کو بلوچ کالونی کے علاقے میں پیش آیا جہاں ایک شخص نذیر احمد نے اپنی ہی بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنا ڈٖالا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بلو چ کالونی کے علاقے محمودآباد کا رہائشی درندہ صفت باپ عرصے دراز سے اپنی کم عمر بیٹی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہا تھا۔ تاہم بلوچ کالونی پولیس نے لڑکی کی شکایت اور ویڈیو ثبوت کی فراہمی پر باپ کے خلاف مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کرلیا۔ دوسری جانب ملزم نے تفتیش کے دوران اپنے لرزہ خیز جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔

چوتھا واقعہ 9 مئی کو رپورٹ ہوا، جس میں چچا نے اپنی بھتیجی کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اسٹیل ٹاون پولیس نے گھگھر پھاٹک نزد حاجی چنگی گوٹھ کی رہائشی خاتون حلیمہ زوجہ عبدالقادر کی شکایت پر ملزم عثمان کو گرفتار کیا ہے۔ مدعی مقدمہ خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ ملزم نے اس کی بیٹی دس سالہ (ر) کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی جسے علاقہ مکینوں نے پکڑ لیا۔جبکہ بیٹی نے بتایاکہ ملزم اس سے قبل بھی ایسی حرکت کرچکا ہے۔

پانچواں واقعہ 13 مئی کو رپورٹ ہوا۔ اورنگی ٹائون پولیس کا کہنا ہے کہ زیادتی کا شکار ایک 7 سالہ بچی ہوئی ہے جس کا مقدمہ بچی کے دادا کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ مدعی نے پولیس کا بتایا ہے کہ میری بہو نے 13مئی کی شام فون کرکے مجھے فوری گھر پر بلایا اور بتایا کہ میری پوتی شام 4 بجے گھر سے کھیلنے کے لیے باہر نکلی تھی اور جب تقریباً شام 5 بجے وہ گھرآئی تو بہت زیادہ رو رہی تھی اور اس کی حالت غیر تھی۔

انہوں نے پولیس کو بتایا کہ نامعلوم ملزم یا ملزمان نے ان کی پوتی کو زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ چھٹا واقعہ 15 مئی کو ملیر سٹی کے علاقے میں پیش آیا، جہاں 7 اوباش نوجوانوں نے ایک 14سالہ بچی کو زیادتی کا شکار بنایا۔ مقدمہ کے مدعی کا کہنا ہے کہ ان کی چودہ سالہ بیٹی (ف) کے ساتھ سات اوباش لڑکوں نے متعدد بار زیادتی کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے 3 ملزمان کو گرفتار بھی کیا ہے جن کی شناخت فرحان ولد فہیم، وہاج ولد ظفر اور رضا ولد ریاض کے نام سے ہوئی۔

پولیس کے مطابق ملزمان نے اسکول کے باہر سے 14 سالہ ( ف) کو زبردستی اپنے گھر لے جا کر اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی اور اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ ملزمان زیادتی کی کوشش کے دوران متاثرہ بچی کی ویڈیو بھی بناتے رہے۔ پولیس نے اس معاملے کی تفتیش شروع کر رکھی ہے اور گرفتار ہونے والے ملزمان کے موبائل فون سے زیادتی کی کوشش کرنے کی ویڈیو بھی بر آمد کی ہے۔ جبکہ ملزمان کے دیگر ساتھی آصف، حسین، تقی اور علی عباس تاحال فرار ہیں۔

ایک نجی اسپتال میں بطور ذہنی اور نفسیاتی معالج کئی سال سے اپنی ذمے داریاں انجام دینے والے ڈاکٹر شاہزیب شاہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے آزادانہ استعمال اور فحش مواد تک با آسانی رسائی کے سبب ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اگر جلد حکومت پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو ہمارا معاشرہ اخلاقی پستیوں کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو جائے گا۔