اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل سے نہیں فیصلہ سنانے سے روکا ہے،فائل فوٹو
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل سے نہیں فیصلہ سنانے سے روکا ہے،فائل فوٹو

انوکھے لاڈلے کے بعد پیش خدمت ہے انوکھی لاڈلی

امت رپورٹ:
خصوصی نوازشات پر انوکھے لاڈلے کا ٹائٹل پہلے سے عمران خان کو ملا ہوا ہے، اب ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی بھی انوکھی لاڈلی کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ جنہوں نے ایک سو نوے ملین پائونڈ کے کیس کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں وہ تماشا کیا، جس کی مثال فلمی عدالتوں کے مناظر میں بھی نہیں ملتی۔

واضح رہے کہ جمعہ کے روز راولپنڈی اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی کے خلاف ایک سو نوے ملین ریفرنس کی سماعت کے موقع پر بشریٰ بی بی بالکل فلمی انداز میں روسٹرم پر احتساب عدالت کے جج کے آگے کھڑی ہو گئیں اور چلاتے ہوئے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔ بشریٰ بی بی کمرہ عدالت میں بری طرح چیختی چلاتی رہیں جبکہ ’’بوڑھا انقلابی‘‘ اور اس کے وکلا ان کی منتیں کرتے رہے۔ یہ ڈرامہ تین گھنٹے سے زائد وقت تک چلتا رہا۔

میاں بیوی کے اس روٹھنے منانے کے عمل میں عدالت کا ایک قیمتی دن ضائع ہو گیا اور کسی ایک گواہ کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا جا سکا۔ ملین ڈالر کا سوال ہے کہ کیا کسی عام مجرمہ کی جانب سے کمرہ عدالت میں اس نوعیت کے رویے کو برداشت کیا جا سکتا تھا؟
بشریٰ بی بی کے اس غصے اور جنونی کیفیت کی وجوہات جاننے کی کوشش کی گئی تو دو بنیادی نکتے سامنے آئے۔ ایک یہ کہ جیل کی چند روزہ قید نے موصوفہ کی طبیعت صاف کر دی ہے۔

یاد رہے کہ بشریٰ بی بی دو کیسوں میں سزا یافتہ ہیں۔ توشہ خانہ ریفرنس میں انہیں اور ان کے شوہر عمران خان کو چودہ، چودہ برس قید جبکہ غیر شرعی نکاح پر دونوں میاں بیوی کو سات سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ قبل ازیں بشریٰ بی بی کو ان کی بنی گالہ رہائش گاہ میں رکھا گیا تھا، اس پر جب یہ آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں کہ پارٹی کی دیگر خواتین مختلف جیلوں میں ہیں تو بشریٰ بی بی کو بنی گالہ میں کیوں رکھا گیا ہے اور اسے پس پردہ ڈیل قرار دیا جارہا تھا۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے بشریٰ بی بی نے اپنے وکلا کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی کہ انہیں بھی عام قیدیوں کی طرح بنی گالہ سے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔

اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بشریٰ بی بی کا خیال تھا کہ اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جائے گی اور وکلا کو بھی ہدایت تھی کہ اس کیس کے پیچھے زیادہ نہیں جائیں۔ اصل مقصد پی ٹی آئی کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کو مطمئن کرنا تھا۔ لیکن یہ کیس گلے پڑ گیا۔ بشریٰ بی بی کی دی ہوئی ہدایت پر وکلا پٹیشن دائر کرنے کے بعد اس پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے تھے۔

وکلا کی جانب سے عدم پیروی پر ایک موقع ایسا بھی آیا جب معزز جج جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے تنگ آکر درخواست خارج کر دی اور خاصی برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا برملا کہنا تھا۔ ’’وکلا نے درخواست تو دائر کر دی ہے لیکن وہ خود بھی نہیں چاہتے کہ کیس جیت جائیں اور اس کے نتیجے میں بشریٰ بی بی جیل چلی جائیں۔ اسی لیے وہ پیش نہیں ہورہے۔‘‘

اس صورت حال میں جب بشریٰ بی بی کا سارا ڈرامہ بے نقاب ہو گیا تو ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق ان کے وکیل نے درخواست خارج نہ کرنے کی استدعا کی اور کیس ایک بار پھر چل پڑا۔ آخرکار آٹھ مئی کو بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل منتقل کر یا گیا۔ اپنے خواب کی اتنی بھیانک تعبیر پر بشریٰ بی بی کو نہ چاہتے ہوئے بھی اڈیالہ جیل جانا پڑا۔ تاہم جیل کی محض دس روزہ قید نے ان کے اعصاب کو شل کر دیا ہے۔

خاص طور پر مئی کے مہینے میں پنجاب میں شروع ہونے والی شدید گرمی کی لہر نے بشریٰ بی بی کو سخت پریشان کر رکھا ہے۔ فی الحال انہیں جیل میں اپنے شوہر عمران خان جیسی سہولیات میسر نہیں۔ یوں جیل کا ایک دن انہیں ایک صدی محسوس ہورہا ہے۔ ایک واقف کار کے بقول ہو سکتا ہے کہ وہ اس گھڑی کو کوستی ہوں جب انہوں نے بنی گالہ سے اڈیالہ جیل منتقل ہونے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ بشریٰ بی بی اور عمران خان کی بہنوں کے مابین جاری سرد جنگ اب شدت اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی میں بشریٰ بی بی کے قریبی لوگوں کو سائیڈ کرنے کے عمل نے بھی انہیں مشتعل کر رکھا ہے۔ شیر افضل مروت اور لطیف کھوسہ کو بشریٰ بی بی کیمپ کے خاص لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے اور دونوں اس وقت پارٹی سے تقریباً سائیڈ کیے جا چکے ہیں۔ بشریٰ بی بی سمجھتی ہیں کہ یہ سب کچھ علیمہ خان کے کہنے پر ہورہا ہے، جن کا اپنے بھائی عمران خان پر خاصا اثر و رسوخ ہے اور وہ آج کل پارٹی کے معاملات میں بھی بہت زیادہ مداخلت کررہی ہیں۔

’’امت‘‘ نے یہ خبر بریک کی تھی کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر میں علیمہ خان نے تقریباً روزنہ بیٹھنا اور مختلف احکامات جاری کرنا معمول بنا لیا ہے۔ دوسری جانب عمران خان پر بشریٰ بی بی اپنے سوا کسی اور کا اثر و رسوخ نہیں دیکھنا چاہتیں۔ یوں بوڑھا انقلابی بیوی اور بہنوں کی لڑائی میں سینڈوچ بنا ہوا ہے۔ اس اختلاف کی واضح جھلک ایک سو نوے ملین پائونڈ کیس کی حالیہ سماعت کے دوران احتساب عدالت میں بھی دیکھنے کو ملی۔ جب بشریٰ بی بی وہاں موجود عمران خان کی بہنوں سے الگ تھلگ بیٹھی رہیں اور ان سے نہیں ملیں، حتیٰ کہ وہ اپنی بیٹیوں کے پاس بھی نہیں گئیں۔ چونکہ وہ بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ بعدازاں علیحدہ کمرے کا انتظام کیے جانے کے بعد انہوں نے اپنی بیٹیوں سے ملاقات کی۔