عمران خان:
آج کل ہر طرف دبئی لیکس کا چرچا ہے۔ لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔ دبئی لیکس کا پاکستانی ڈیٹا وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے پاس پچھلے 7 برس سے موجود تھا۔ یہ ڈیٹا اہم ادارے نے دبئی حکام سے رابطہ کر کے منگوایا تھا۔ یہ ڈیٹا غیر سرکاری طور پر منگوایا گیا تھا۔ کیونکہ ملک کی معیشت انتہائی خراب تھی۔ اس ڈیٹا کو منگوانے کا مقصد پاکستان سے زر مبادلہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کرنے والے امیر پاکستانیوں کی غیر ظاہر شدہ جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کر کے ٹیکس اور جرمانے کی مد میں پیسہ قومی خزانے میں جمع کروانا تھا۔
یہ بھی طے ہوا تھا کہ متعلقہ امرا طبقہ جن کی دبئی میں جئیدادیں موجود ہیں۔ وہ اگر جرمانہ اور ٹیکس نہیں دیتے تو ان کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کی جائیں گی۔ جب یہ ڈیٹا سامنے آیا تو اس میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت بااثر بیوروکریٹ، سابق جنرلز، میڈیا ہائوس مالکان اور بڑے سرمایہ کار ملوث نکلے۔ متعدد نے یہ جائیدادیں اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے بنا رکھی تھیں۔
بعد ازاں کارروائی شروع کردی گئی تھی۔ ایف آئی اے نے ایک بڑے میڈیا ہائوس مالکان کی رہائش گاہ پر نوٹس بھی چسپاں کر دیا تھا۔ جبکہ متعدد پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ سیاستدانوں کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا تھا۔ ٹھیک اسی دوران تحقیقاتی ادارے پر دبائو بڑھنا شروع ہوگیا اور کارروائی متاثر ہونے لگی۔ پھر ایسا وقت آیا کہ تحقیقات سرد خانے میں ڈال دی گئی۔ یہ نون لیگ کا دور حکومت تھا۔ پھر پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس نے بھی اس کارروائی کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ بلکہ الٹا ان عناصر کے لئے ایک بچت کا راستہ نکال لیا۔ یہ راستہ ایک ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے نکالا گیا۔
دو ہزار انیس میں پی ٹی آئی حکومت نے غیر ملکی اثاثوں، غیر ظاہر شدہ جائیدادوں اور برائے نام ٹیکس شرح پر کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے پہلی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا۔ یہ اسکیم ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے عمل میں لائی گئی۔ جس کے تحت لوگوں کو 45 دن کے اندر ٹیکس کی ادائیگی کے ساتھ اپنے غیر اعلانیہ اثاثوں اور اخراجات کو ظاہر کرنا تھا۔ اور معمولی ٹیکس کے عوض اسے قانونی تحفظ فراہم کرنا تھا۔ یہ اسکیم اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے منظور کی تھی۔ یوں دبئی میں غیر ظاہر شدہ یا غیر اعلانیہ اثاثے رکھنے والوں کو برائے نام جرمانے کے عوض تحفظ فراہم کر دیا گیا۔ جبکہ ایف آئی اے کی تحقیقات کا باب بھی ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا۔ اس تناظر میں موجودہ دبئی لیکس میں جن افراد کے نام آئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے پہلے ہی اپنا کالا دھن شفید کرچکے ہیں۔ لہٰذا ان کے خلاف مزید کسی کارروائی کا سر دست کوئی امکان نہیں ہے۔
دو ہزار سترہ میں دبئی میں خفیہ اثاثے بنانے والے ہزاروں پاکستانیوں کا ڈیٹا پاکستانی اداروں کو ملنے کا پس منظر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ ایک وفاقی ادارے سے منسلک سینئر افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ 2016ء میں انہیں خفیہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ کراچی کے مرکزی علاقے میں موجود ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں دبئی میں بڑے اور لگژری رہائشی منصوبے کا آغاز کرنے والے دو بڑی کمپنیوں نے ایک نمائش کا اہتمام کیا تھا۔
اس نمائش میں دبئی کے تعمیراتی منصوبوں میں کروڑوں روپے کی محفوظ سرمایہ کاری کے لئے ہزاروں امیر پاکستانیوں کو دعوت دی گئی۔ جنہوں نے مستقبل میں اس سرمایہ کاری پر مزید کروڑوں روپے کا منافع ملنے کی لالچ میں اس نمائش میں شرکت کی اور کچھ نے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے ان کمپنیوں کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ اسی دوران وفاقی ادارے کے یہ افسر اپنی ٹیم کے ساتھ اس فائیو اسٹار ہوٹل میں پہنچ گئے۔ چونکہ یہ افسر اعلیٰ حکام سے پہلی ہی چھاپے کی منظوری لے چکے تھے۔ کیونکہ ملک کی معاشی صورتحال خراب تھی اور امیر لوگ ملک میں سرمایہ کاری کے بجائے قیمتی زر مبادلہ دبئی میں لگا کر ملک کو مزید نقصان پہنچا رہے تھے۔ اس ٹیم نے نمائش میں موجود کمپیوٹرز اور تحریری ریکارڈ قبضے میں لیا۔ جس میں بکنگ کروانے والے تمام پاکستانی سرمایہ کاروں کے کوائف موجود تھے۔ اس پر بعد میں تحقیقات کا آغاز ہوتے ہی اوپر سے دبائو آنے پر اسے روک دیا گیا۔
تاہم یہ فہرست ملکی سلامتی سے منسلک ادارے کے حکام کو بھی مل گئی۔ جس پر انہوں نے تحقیقات کو اپنے طور پر وسیع کرنے کا فیصلہ کیا اور دبئی حکام سے غیر سرکاری طور پر رابطہ کر کے ان تمام پاکستانیوں کا ڈیٹا حاصل کیا۔ جنہوں نے 2017ء تک دبئی میں جائیدادیں خریدی تھیں۔ چند ماہ میں پاکستانی ادارے کو 15 ہزار سے زائد ایسے پاکستانیوں کی فہرست مل گئی تھی۔ اس معاملے میں بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے بھی ایکشن لیا گیا اور ایف آئی اے کو احکامات جاری کیے گئے کہ دبئی لیکس میں شامل ان 15 ہزار میں سے پہلے سیاستدانوں اور ان کے فرنٹ مینوں کو کھنگال کر نکالا جائے اور ان سے ریکوری کی جائے۔
اس معاملے میں 2017ء میں وزارت داخلہ کے احکامات پر ڈی جی ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ایک تحقیقاتی ڈیسک قائم کی گئی۔ جس نے اس مجموعی فہرست میں سے سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام ایف آئی اے زونل آفس کراچی کو بھجوائے۔ اسی طرح پنجاب کے کوائف زونل آفس لاہور، خیبرپختونخواہ کے افراد کے کوائف زونل آفس پشاور اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد کے کوائف زونل آفس کوئٹہ کو بھیجے گئے تھے۔
ذرائع کے بقول اس معاملے پر تحقیقات بند ہونے سے پہلے ایف آئی اے سندھ کی ٹیمیں سندھ سے 19 بیوروکریٹس اور سیاسی شخصیات کی فہرست مرتب کرکے اعلیٰ حکام کو ارسال کر چکی تھیں۔ جبکہ ملک بھر میں ان افراد کی تعداد 44 تھی۔ 15 ہزار میں شامل یہ افراد پولیٹیکلی ایکسپوزڈ کی فہرست میں ڈال کر کارروائی کے لئے سر فہرست رکھے گئے تھے۔ ان میں محکمہ ایف بی آر کسٹم کے 21 گریڈ کے افسر واصف میمن شامل تھے۔ جو کہ آج کل چیئرمین سندھ ریونیو بورڈ ہیں۔
اس کے ساتھ ہی معروف بزنس مین اور سیاست دان مرزا افتخار بیگ، اشوک کمار چائولہ، پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن، سابق ڈی جی کے ڈی اے آغا مقصود عباس، سندھ کے معروف سیاستدان ممتاز بھٹو، سابق وزیر داخلہ سندھ عرفان مروت رضوان امین، آغا شاہد، بدین سے سابق رکن اسمبلی اور پی پی رہنما میر حسن خان تالپور، محمد غفران، پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی نصرت واحد، پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی غلام مصطفی شاہ، پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کے فرنٹ مین قرار دیئے جانے والے غلام عباس زرداری اور حامد سموں پیرانوں کے علاوہ ملک کے ایک بڑے میڈیا گروپ کے مالک شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی عزیزہ سنبلینہ ذوالفقار بھی شامل تھیں۔