امت رپورٹ:
ایک طرف اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کا وزن گررہا ہے اور وہ یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی رہائی کے لئے پارٹی قیادت بھرپور عوامی مظاہرے کرے گی۔ اس کے برعکس ان کی وقتی مقبولیت کو کیش کراکے ایوانوں میں پہنچنے والے اراکین اور پارٹی رہنما سیروتفریح اور تکے پھاڑنے میں مصروف ہیں۔ اکثر شام کو یہ محفلیں وفاقی دارالحکومت کے پر فضا اسلام آباد کلب پولو گراؤنڈ میں جمتی ہیں۔
اسلام آباد کے قلب میں واقع اس سرسبز اور پھولوں سے لہلہاتے کلب میں دو بڑے پولو گراؤنڈز ہیں جہاں روز میچز ہوتے ہیں۔ لیکن یہ صرف پولو کھیلنے یا دیکھنے والوں کے لیے ہی ایک پرکشش مقام نہیں بلکہ شہر اور گرد و نواح کی تقریباً ساری ایلیٹ یہاں سیر کرنے، واک کرنے، خوش گپیوں، چائے پینے یا باربی کیو سے لطف اندوز ہونے بھی آتی ہے۔ کیونکہ یہاں ایک ٹک شاپ اور مارکی کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ بھی ہے۔ یہی ریسٹورنٹ آج کل زیادہ تر پی ٹی آئی رہنماؤں کا مسکن ہے۔ ٹک شاپ کا رخ یہ شاذ و نادر ہی کرتے ہیں جہاں چائے اور جوس ہوتا ہے۔
نمائندہ ’’امت‘‘ نے پچھلے ایک ماہ کے دوران اسلام آباد کلب پولو گراؤنڈ میں پی ٹی آئی کے کئی معروف بے فکرے چہروں کو خوش گپیاں اور سیر و تفریح کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جس روز نیلی ٹی شرٹ میں ان کے ’’انقلابی رہنما‘‘ کی پژمردہ تصویر منظر عام پر آئی، اس شام بھی ان میں سے کئی رہنماؤں کے قہقہے کلب میں گونج رہے تھے۔ عمران خان کی گرفتاری کو ریڈ لائن قرار دینے والوں کی زیادہ تر بیٹھک مارکی ریسٹورنٹ میں ہوتی ہے۔ جہاں واک سے پہلے یا کبھی واک کے بعد یہ رہنما چکن تکہ، کباب، مٹن کڑھائی اور دوسرا پرتکلف کھانا تناول فرماتے ہیں۔
بعض اوقات ان کی خوش گپیوں اور قہقہوں کی آواز اتنی بلند ہوتی ہے کہ فاصلے پر موجود ٹک شاپ تک جاتی ہے۔ نمائندہ ’’امت‘‘ نے بتایا کہ یہاں اس نے عاطف خان، شبلی فراز، اسد قیصر، شہریار آفریدی، سابق چیف سیکریٹری کے پی کے اور عمران خان کے سابق ایڈوائزر شہزاد بنگش سمیت حالیہ انتخابات میں منتخب ہونے والے متعدد پی ٹی آئی ارکان کو آتے جاتے دیکھا۔ ان میں کئی نئے چہرے بھی ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں جیل جانے کے بعد سے عمران خان کو اوپر تلے مایوسیوں نے گھیرا ہوا ہے۔ پہلے ان کی پارٹی کے تقریباً تمام صف اول کے رہنما ساتھ چھوڑ گئے اور اب جو ساتھ ہیں اور ان کے نام پر ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں، وہ اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ ان کی وفاداری اور خلوص کا واحد سبب عمران خان کی نام نہاد مظلومیت کو پڑنے والے ووٹ کا حصول تھا اور یہ مقصد وہ حاصل کرچکے ہیں۔ لہٰذا بظاہر لاتعلق نظر آتے ہیں۔
اسی طرح جو وکلا پہلے عمران خان پر جان نچھاور کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے، انہوں نے پہلے بھاری فیس لے کر اپنی جیب بھری اور انتخابی ٹکٹ الگ حاصل کئے۔ ان میں سے کچھ جیت گئے اور بعض ہار گئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا جوش بھی ٹھنڈا پڑگیا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے جیل جانے کے بعد سے ان کی شدید خواہش کے باوجود پی ٹی آئی کوئی بڑا مظاہرہ نہیں کرسکی ہے۔ اس کا بنیادی سبب پارٹی قیادت کی عدم دلچسپی ہے۔ وہ بظاہر عمران خان کو رہائی دلانے کے لئے مسلسل بڑے عوامی مظاہروں کے دعوے تو کر رہے ہیں، لیکن عملی طور پر کارکنوں کو باہر نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ انہیں ایوان میں پہنچنا تھا، عہدے اور مراعات لینی تھیں، وہ انہیں مل چکی ہیں۔ اب ان کی بلا سے ’’انقلابی لیڈر‘‘ جیل میں ڈپریشن کی گولیاں کھاتا رہے۔ قصہ مختصر اس سارے قصے کا عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ عمران خان اپنوں کے ہاتھوں ہی استعمال ہوگئے۔ یہی مکافات عمل ہے کہ ماضی میں وہ خود بھی اپنے مقاصد کے لئے یہی کچھ کرتے رہے۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹوں پر ایوانوں میں پہنچ کر مراعات حاصل کرنے والوں کی کارکردگی پر عمران خان سخت رنجیدہ ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ الیکشن کے بعد سنگل اکثریتی پارٹی بن جانے کے بعد ان کے نام پر ایوانوں میں پہنچنے والے ایک بھونچال لے آئیں گے۔ تاکہ ان کی رہائی کے لئے حکومت پر دبائو ڈالا جاسکے۔ لیکن تاحال ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ پارٹی قیادت کی اس بے حسی کو کارکنان پوری طرح محسوس کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ بنی گالہ کے باہر ایک مظاہرے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے، جن میں خواتین شامل تھیں، یہی نعرے لگائے گئے تھے کہ عمران خان کے نام پر ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں پہنچنے والے انہیں بھول چکے ہیں۔ انہیں یا تو اپنی سیٹیں واپس کرنی ہوں گی یا تحریک چلانے کے لئے عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔