سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد نہ ہو تو توہینِ عدالت کا نوٹس ہوتا ہے، فائل فوٹو
سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد نہ ہو تو توہینِ عدالت کا نوٹس ہوتا ہے، فائل فوٹو

نیب کا چٸیرمین سپریم کورٹ تعینات کرے‘عمران خان کا چیف جسٹس سے مکالمہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت شروع ہوچکی ہے، جس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان بھی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو اپیل کنندہ زہیر صدیقی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کرلی ہیں ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کروا دیں۔

چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ فیصلے کو سپورٹ کر رہے ہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک بولے کہ میں جسٹس منصورعلی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل کو اپنا رہے ہیں؟ تو فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل اپنے ہیں، میں نے تحریری معروضات میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے، میں نے سپریم کورٹ فیصلہ پر اپنے دلائل تحریر کئے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک کے بعد وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے۔خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ بتائیں کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14 ،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ مشرف سے پہلے بھی احتساب بیورو موجود تھا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا، غیر منتخب پبلک آفس ہولڈر پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا، ہم نے نیب ترامیم 2022 چیلنج کی تھیں، میں بینچ پر اور انٹرا کورٹ اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا، سپریم کورٹ میں مرکزی درخواست قابل سماعت تھی۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں؟ کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ میں دلائل دوں گا کہ اقلیتی رائے درست نہیں تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ 90 دنوں میں نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ 50 کروڑ سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں؟

جس پر خواجہ حارث بولے کہ نیب ترامیم اس لیے کی گئیں کیونکہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم مخصوص شخصیات سے متعلق لائی گئیں، پبلک آفس ہولڈر صرف سیاستدان نہیں، عوامی نمائندوں کے احتساب سے مراد صرف منتخب نمائندوں کا احتساب نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کسی محکمے میں کرپشن ہوتی ہے تو ذمہ دار پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوتا ہے، منتخب نمائندے کے پاس پبلک فنڈز تقسیم کرنے کا اختیار کہاں ہوتا ہے کوئی ایک مثال بتائیں۔

جسٹس جمال مندو خیلنے کہا کہ کوئی منتخب نمائندہ یا وزیر متعلقہ سیکرٹری کی سمری کے بغیر کوئی منظوری نہیں دیتا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میں کوئی ایسا بیان تو نہیں دینا چاہتا کہ سیاستدان کرپٹ ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا کوئی سیکرٹری سمری میں لکھ دے کہ یہ چیز رولزکے خلاف ہے تو وزیرمنظوری دے سکتا ہے؟

جس پر خواجہ حارث بولے کہ نہیں، مگر اس کے باوجود کرپشن ہوتی ہے، دبئی لیکس اور جعلی اکاؤنٹس ہمارے سامنے ہیں۔جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا ہم زخم ٹھیک کریں مگر وجہ نہ دیکھیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو دلائل دینا چاہتے ہیں وہ دیں، باقی نوٹ کروا دیں ہم پڑھ لیں گے، آپ بتائیں آپ کو کتنا وقت درکار ہو گا۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں دلائل میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت لوں گا، میں بتاؤں گا نیب ترامیم کا معاملہ بنیادی حقوق سے کیسے جڑا ہے، بینظیر کیس میں طے ہوا تھا یہ درخواستگزار کی مرضی ہے وہ مفاد عامہ پر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرے، دونوں فورمز پر ایک ساتھ درخواست دائر کرنے پر پابندی ہے، بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر ہائیکورٹ کے بجائے سپریم کورٹ آنے پر اعتراض نہیں بنتا تھا۔