مقررہ مدت کے بعد دائر درخواستیں ٹریبونل نہیں سن سکتا- کنور دلشاد، فائل فوٹو
مقررہ مدت کے بعد دائر درخواستیں ٹریبونل نہیں سن سکتا- کنور دلشاد، فائل فوٹو

اسلام آباد کی تین سیٹوں پر دھاندلی کا معاملہ الجھ گیا

امت رپورٹ :
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں دھاندلی کی شکایات سے متعلق ایشو الجھ گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ناکام امیدواروں کی جانب سے نون لیگی ارکان اسمبلی کو فارغ کرانے کی کوششوں کا معاملہ اتنا آسان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے امیدواروں شعیب شاہین، علی بخاری اور عامر مغل نے ٹریبونل کی تبدیلی کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی سربراہی میں قائم ٹریبونل میں ان تینوں نے اسلام آباد سے نون لیگ کے ارکان قومی اسمبلی عقیل انجم، طارق فضل چوہدری اور خرم نواز کی کامیابی کو چیلنج کیا تھا۔ تاہم تینوں نون لیگی ارکان نے ٹریبونل کی کارروائی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ٹریبونل کی منتقلی کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواست دی تھی۔ الیکشن کمیشن نے یہ درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ٹریبونل تبدیل کر دیا تھا۔

اس دوران حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ایک ریٹائرڈ جج پر مشتمل ٹریبونل بنا دیا۔ جس نے یہ درخواستیں سننی تھیں۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے نئے الیکشن ٹریبونل کو کارروائی سے روک دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کیا ایمرجنسی تھی جو راتوں رات آرڈیننس آگیا؟ اور یہ کہ کس گرائونڈ پر الیکشن کمیشن نے ٹریبونل تبدیل کیا ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ٹریبونل نے پروسیجر کو فالو نہیں کیا تھا۔ جس پر ٹریبونل تبدیل کرنا پڑا۔ بعد ازاں کیس کی سماعت چوبیس جون تک ملتوی کر دی گئی تھی۔

اس سارے معاملے میں یہ نکتہ سامنے آیا ہے کہ نون لیگی ارکان اسمبلی کی کامیابی کو پی ٹی آئی کے امیدواروں نے طے شدہ مدت گزرنے کے بعد چیلنج کیا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل عدالت عالیہ میں اسی پروسیجر کی بات کر رہے تھے۔ جس پر ٹریبونل نے عمل نہیں کیا۔ قانون کے مطابق کسی بھی امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد پینتالیس دن کے اندر اس کی کامیابی کو ٹریبونل میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے امیدواروں نے الیکشن ٹریبونل میں طارق فضل چوہدری، عقیل انجم اور خرم نواز کی کامیابی کو یہ مدت گزر جانے کے بعد الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کیا۔ اس صورت میں الیکشن ٹریبونل کے پاس یہ درخواستیں سننے کا اختیار ہی نہیں تھا۔

الیکشن کمیشن کے اس ٹھوس نکتے کے سبب بظاہر یہ مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ نون لیگی ارکان کو فارغ کرانے سے متعلق پی ٹی آئی امیدواروں کی خواہش پوری ہو جائے اور اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ آبھی جاتا ہے تو اسے لامحالہ اس مضبوط گرائونڈ کے ساتھ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا کہ پی ٹی آئی امیدواروں نے مقررہ مدت میں اپنی درخواستیں الیکشن ٹریبونل میں دائر نہیں کی تھیں۔ لہٰذا ٹریبونل کے پاس ان شکایات کو سننے کا اختیار نہیں تھا۔

اس سارے معاملے پر جب الیکشن کمیشن پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا۔ ’’الیکشن کمیشن کا شروع سے یہی مؤقف چلا آرہا ہے کہ الیکشن ٹریبونل نے پروسیجر فالو نہیں کیا اور یہ کہ الیکشن کمیشن کے پاس ٹریبونل تبدیل کرنے کا اختیار ہے۔ یہ موقف درست ہے۔ الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کی شق ایک سو اکیاون کے تحت الیکشن کمیشن کسی بھی مرحلے پر ٹریبونل تبدیل کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ٹھوس وجوہات ہونی چاہئیں۔ مثلاً الیکشن کمیشن محسوس کرے کہ الیکشن ٹریبونل قوانین کے مطابق کام نہیں کر رہا۔

اسی طرح اگر کوئی فریق ٹریبونل پر غیر جانبداری کا الزام لگا رہا ہو اور وہ ثابت ہو جائے تو پھر الیکشن کمیشن پاکستان ٹریبونل کو تبدیل کر سکتا ہے۔ یہی بات عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی کی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کی درخواستیں اگر مقررہ مدت کے بعد ٹریبونل میں دی گئی ہیں تو پھر الیکشن ٹریبونل کے پاس ایسی درخواستوں کو سننے کا اختیار نہیں تھا۔ حتیٰ کہ مدت کے بعد دائر کی جانے والی انتخابی عذرداری تو خود الیکشن کمیشن پاکستان کے پاس بھی نہیں سن سکتا۔ الیکشن ٹریبونل کو چاہیے تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے امیدواروں نے مقررہ مدت کے بعد درخواستیں دیں تو انہیں سننے کے بجائے الیکشن کمیشن پاکستان کو بھیج دیتا‘‘۔

کنور دلشاد کے بقول الیکشن ٹریبونل کو تبدیل کرنے کے حوالے سے یہ ایک مضبوط پوائنٹ الیکشن کمیشن پاکستان کے پاس موجود ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن سے یہ غلطی ضرور ہوئی ہے کہ جب وہ ٹریبونل تبدیل کر رہا تھا تو اسے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ یہ نکتہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اٹھایا ہے کہ ان کے مشورے پر جسٹس طارق محمود جہانگیری کو ٹریبونل کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن ٹریبونل تبدیل کرتے وقت ان سے مشورہ نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ پچھلے برس آپ نے ریٹائرڈ ججوں کی جگہ حاضر سروس ججوں کو ٹریبونلز کا سربراہ بنانے کی ترمیم کی تھی۔ اب ایک برس میں ایسی کیا وجوہات پیدا ہو گئیں کہ ریٹائرڈ ججوں سے متعلق ترمیم کرنی پڑ گئی۔ کنور دلشاد کے مطابق ان کے خیال میں اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریٹائرڈ ججوں کی تقرری سے متعلق آرڈیننس کو بدنیتی قرار دے دیا تو پھر آرڈیننس تحلیل ہو جائے گا۔

ایک سوال پر کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ نون لیگ کے تین ارکان میں سے ایک انجم عقیل بظاہر پھنستے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف جو سنگین الزامات لگائے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے انجم عقیل سے کہا ہے کہ وہ ان الزامات کے شواہد پیش کریں۔ بصورت دیگر انہیں پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور جیل بھی بھیجا جائے گا۔