عدالتوں میں آج بھی ہزاروں مقدمات التواکا شکار ہیں، فائل فوٹو
عدالتوں میں آج بھی ہزاروں مقدمات التواکا شکار ہیں، فائل فوٹو

عدلیہ سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جلد ختم ہو جائے گی، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

لاہور: چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان کا کہنا ہے جلد عدلیہ سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم ہو جائے گی۔

راولپنڈی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان کا کہنا تھا کہ ہماری عدالتوں میں آج بھی ہزاروں مقدمات التواکا شکار ہیں ، ایک نسل مقدمہ کرتی ہے اور تیسری نسل جا کر فیصلہ سنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ میٹنگ بلائی اور اس میں فیصلہ کیا کہ ہڑتال کلچر برداشت نہیں ہوگا، 13 مئی کو پنجاب کی عدلیہ کو سرکلر جاری کیا اور بتایا کہ ہڑتال کی کسی کال کو نہیں مانیں گے، ہڑتال کی کال ہو یا نہیں کام قانون کے مطابق کریں جس کے بعد پنجاب کے تمام وکلاء نے ہڑتال اور تالا بندی کے کلچر کو دفن کردیا، وکلا کا یہ کام نہیں کہ عدالت کو تالا لگائیں کچھ سیاسی عناصر ہوتے ہیں ان سے درخواست ہے آپ لوگ وکالت چھوڑ دیں ہمیں کرنے دیں، ہم آپ کو بھرتی کرلیں گے شام کو تالا لگا لیجیے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خطوط آتے ہیں اور ہمیں دھمکیاں دی جاتی ہیں، خوشی ہے عدلیہ بغیر خوف، ڈر اور لالچ کے فیصلے کررہی ہے، ہمیں آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں، عدلیہ میں مداخلت میں مختلف ادارے ملوث ہیں۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا کہنا تھا کہ کسی قسم کی قربانی دینی پڑے اس سے گھبرانا نہیں چاہیے، ایک جج صاحب نے بھی قربانی دینے کا اعلان کیا ہے،اسٹیبلشمنٹ سے جان چھڑانے کیلیے ہم نے فیصلے جرات اور دلیری سے کرنے ہیں، جلد عدلیہ سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کام کرنا ہے ، ہمیں کسی کے ڈر خوف کا شکار نہیں ہونا چاہیے،عدالتی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ججز نے شکایات کی کہ وہ خوفزدہ ہیں، یہ مسئلہ ملک کی بدقسمتی ہے، ججز نے سارے واقعات بیان کیے ہیں جو ان پر ہو گزرے ہیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسی بہت شکایات ہمارے پاس آئی ہیں ایک بار ڈسٹرکٹ جج نے کہا وہ ڈرتے نہیں صرف آگاہ کر رہے ہیں، آسمان والے کی آپ کو رہنمائی ملے گی آپ بلیک میلنگ کا شکار نہ ہوں، کوئی جج کسی بلیک میلنگ میں نہ آئے، اسٹیبلشمنٹ کی عدلیہ میں مداخلت کا جلد خاتمہ ہونے والا ہے یہ میرے ایمان کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت زیادہ ہے اور مولوی تمیز الدین کیس سے یہ سلسلہ شروع ہوا اس میں ادارے ملوث ہیں جن کا نام لینا مناسب نہیں تاہم اس وقت عدلیہ بغیر دباؤ کے اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے، ایک ڈسٹرکٹ جج نے اس مداخلت کا خط لکھا کہ میں ڈرتا نہیں اس جج نے کہا انصاف کروں گا کسی سے ناانصافی نہیں کروں گا جج کے ان الفاظ سے میرا خون ڈیڑھ کلو بڑھ گیا۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلوں میں تاخیر سب سے بڑا مسئلہ ہے، اکثر مقدمات میں گواہ ہی پیش نہیں ہوتے ، بیرون ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کو بھی مقدمات میں مسائل کا سامنا ہے، عوام کو فوری اور سستا انصاف پیدا کرنے کیلیے آسانی پیدا کرنا ہوں گی، ہم سمندر میں ایک قطرے کے برابر بھی بہتری لے آئے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا اجر دیں گے۔