نمائندہ امت :
صوبہ خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں کے زوال کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک بھر کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں کیلئے ہونے والے ٹیسٹ میں خیبرپختون کے 85 فیصد سے زائد طلبہ ناکام ہوگئے۔ پندرہ فیصد پاس امیدواروں کے نمبرز بھی دیگر صوبوں کے طلبہ سے کم ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پورے ملک کی تمام انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلہ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔
خیبرپختون میں یہ ٹیسٹ ایٹا کے زیر اہتمام کرایا گیا۔ تاہم خیبرپختون کے 85 فیصد طلبا و طالبات ناکام رہے۔ جس کے سبب گزشتہ دس برس میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے کی گئی تعلیمی اصلاحات کا پول بھی کھل گیا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی حکومت سے قبل اس طرح کے ٹیسٹوں میں انجینئرنگ کے طلبہ کی کامیابی 67 فیصد سے 45 فیصد کے درمیان رہی ہے۔ تاہم گزشتہ دس برس میں یہ معیار کم ہوتا ہوا 15 فیصد تک آگیا ہے۔
انجینئرنگ یونیورسٹی آف پشاور کے ایک پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تعلیمی زوال کی اصل وجہ فنڈنگ کی کمی اور تحقیق و تدریس کے بجائے تعمیرات پر توجہ دینا ہے کہ تعمیرات میں حکومتی عہدیداروں کو ٹھیکہ داروں سے کمیشن ملتا ہے۔ انجینئرنگ یونیورسٹیز سے لیکر دیگر جامعات تک پورے صوبے میں جتنے بجٹ منظور کرائے گئے۔ تعمیرات کیلئے رقم مختص کی گئی۔ جبکہ ریسرچ کیلئے رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے تعلیمی ادارے زوال پذیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے آئندہ سال یہ معیار دس فیصد تک گر جائے اور اس صوبے کے انجینئرنگ کے اداروں میں بھی ہمیں ملک کے دیگر حصوں سے طلبہ کو داخلے دینا پڑیں گے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق اتوار کو انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور میں انٹری ٹیسٹ کیلئے 3 ہزار 895 امیدواروں نے حصہ لیا۔ لیکن ان میں سے 3 ہزار 370 امیدوار پچاس فیصد نمبر حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ جبکہ فیل امیدواروں میں سے بعض نے میٹرک اور ایف ایس سی میں ٹاپ پوزیشنز بھی لی تھیں۔ دوسری جانب ان نتائج پر تنقید شروع کر دی گئی ہے اور کالجز و اسکولوں کے تعلیمی معیار پر بھی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
صوبائی محکمہ ہائر ایجوکیشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ بلاشبہ ریسرچ کے بجائے تعمیرات پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ تاہم وفاق کی جانب سے تعلیمی ادارے صوبے کے حوالے کرنے کے بعد اس لئے مشکلات کا سامنا ہے کہ صوبے میں فنڈنگ کی کمی ہے۔ ایچ ای سی نے بھی فنڈز میں کمی کر دی ہے۔ ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئندہ چند برسوں میں خیبرپختون کی کئی یونیورسٹیاں بند ہونے کا امکان ہے۔ جبکہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے محمود خان دور میں قبائلی اضلاع میں قائم کی گئی جامعات کو ختم کرنے اور دیگر بڑی یونیورسٹیوں کو کیمپس میں تبدیل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں کے معیار پر بھی انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں، جوہاں بھاری بھرکم فیسیں وصول کی جاتی ہیں، کہ اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کس طرح پچاس فیصد سے کم نمبر حاصل کر رہے ہیں۔ خاص کر فیل ہونے والے طلبہ کے والدین تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں اور انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں خدشات ہیں کہ اگر ان کے بچوں کی تعلیمی قابلیت ایسی ہی رہی تو ان کے مستقبل پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔