کراچی کے 207 نشیبی علاقوں میں نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے سے صورتحال بگڑنے کا امکان ہے، فائل فوٹو
 کراچی کے 207 نشیبی علاقوں میں نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے سے صورتحال بگڑنے کا امکان ہے، فائل فوٹو

سندھ میں مزید بارشوں کی پیشگوئی نے خطرے کی گھنٹی بجادی

ارشاد کھوکھر:
ملک بھر میں مون سون کی بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت جو بارشوں کا اسپیل چل رہا ہے۔ وہ آج 6 اگست کو ختم ہو جائے گا۔ لیکن آنے والی بارشوں کے سلسلے نے خصوصاً سندھ اور پنجاب کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ رواں مون سون میں پنجاب اور سندھ میں معمول سے 50 فیصد زیادہ ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ صرف 50 فیصد سے زائد بارشیں ہوں۔ کیونکہ محکمہ موسمیات کی اس حوالے سے پیشن گوئیاں اکثر غلط ثابت ہوئی ہیں۔

اس کی ایک مثال 2022ء کے تباہ کن سیلاب اور بارشوں کی صورت میں دیکھی جاچکی ہے۔ ابھی تک بارشوں کی وجہ سے ملک بھر میں تقریباً 120 افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ سندھ کے بعض اضلاع کو صوبے میں ہونے والی بارشوں سے زیادہ بلوچستان میں ہونے والی بارشوں سے زیادہ خطرہ ہے۔ اس صورت حال میں نہروں میں پڑنے والے شگاف مزید تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم ابھی تک دریائے سندھ میں پانی کی سطح معمول کے مطابق ہے۔ مون سون کی بارشوں کے باعث کراچی کے 207 نشیبی علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جہاں زیادہ پانی جمع ہونے کا خدشہ ہے۔

واضح رہے کہ مون سون کی جاری بارشوں کا تیسرا اسپیل آج 6 اگست کو ختم ہو رہا ہے۔ جس کے بعد سندھ میں 11 سے 13 اگست تک بارشوں کے نئے اسپیل کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بارشوں کے اس اسپیل میں ضلع کشمور، جیکب آباد، شکارپور، لاڑکانہ، قمبر شہدادکوٹ، دادو، جامشورو، حیدرآباد، مٹیاری، ٹھٹھہ، بدین، سجاول، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، سانگھڑ، بے نظیرآباد، نوشہروفیروز، خیرپور، گھوٹکی، سکھر، میرپورخاص، عمرکوٹ، تھرپارکر اضلاع کے ساتھ کراچی ڈویژن میں بھی بارش کا امکان ہے۔

جہاں تک محکمہ موسمیات کی پیشن گوئیوں کا تعلق ہے تو محکمہ موسمیات کی اکثر پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ اس کی ایک جھلک 2022ء کی شدید بارشوں کی صورت میں بھی سامنے آچکی ہے۔ اُس وقت بھی جو پیشن گوئی کی گئی تھی۔ اس کے مقابلے میں 16 اگست 2022ء کے بعد ہونے والی شدید بارشوں سے محکمہ موسمیات کی قلعی بھی کھل گئی تھی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ بارشوں کے حالیہ اسپیل کے متعلق محکمہ موسمیات نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ 3 اگست کے بعد کراچی میں ہلکی پھلکی بارش ہو گی۔ لیکن اس کے برعکس 4 اگست کو ناظم آباد اور کراچی کے دیگر علاقوں میں شدید بارشوں نے سب کو حیران کر دیا۔

یہی صورتحال شمالی سندھ کے بعض اضلاع میں سامنے آئی۔ بارش کی صورت حال اور ممکنہ امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے متعلق دو روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس کو چیف میٹروولوجسٹ ڈاکٹر سرفراز نے آگاہ کیا کہ 11 تاریخ کے بعد 18 سے 20 اگست تک بارش کا ایک اور سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ جس میں کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارش ہو سکتی ہے اور مون سون کی بارشوں کا یہ سلسلہ 15 ستمبر سے 20 ستمبر تک جاری رہ سکتا ہے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ بلدیات، محکمہ بحالی، محکمہ ریونیو، محکمہ آبپاشی سمیت دیگر محکموں کے وزرا اور اعلیٰ افسران کو نکاسی آب اور امدادی سرگرمیوں کے متعلق بروقت انتظامات کرنے کی ہدایات دیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا کہ سندھ کے تین اضلاع کو سندھ میں ہونے والی بارشوں سے زیادہ بلوچستان میں ہونے والی بارشوں سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ جن میں ضلع قمبر شہداد کوٹ، دادو اور جامشورو اضلاع شامل ہیں۔ کیونکہ بلوچستان کے پہاڑی سلسلے میں ہونے والی بارشوں کے پانی کی گزرگاہ ان اضلاع سے ہے۔ مذکورہ پانی منچھر جھیل کے ذریعے سیوھن کے مقام پر دریائے سندھ میں گرتا ہے۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ آبپاشی و ضلعی انتظامیہ کے افسران کو خبردار کیا کہ اس سلسلے میں منچھر جھیل پر خصوصی توجہ دی جائے۔ منچھر جھیل میں بارشوں کے سیلابی ریلے سے جھیل میں پانی کی سطح بلند ہو تو فوری طور پر جھیل سے دریائے سندھ میں پانی کا اخراج فوری طور پر شروع کیا جائے۔ تاہم اجلاس کو بتایا گیا کہ ابھی تک منچھر جھیل میں پانی کی سطح معمول کے مطابق ہے اور دریائے سندھ میں بھی سیلاب کی صورت حال نہیں ہے۔ تاہم جہاں دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کی بات ہے تو اس کا اندازہ پنجاب، کے پی کے میں ہونے والی شدید بارشوں سے لگایا جائے گا۔

دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق حالیہ بارشوں میں چھتیں اور دیواریں گرنے، کرنٹ لگنے اور سیلابی ریلوں میں بہہ جانے کے باعث ملک بھر میں تقریباً 120 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں سے پنجاب میں تقریباً 40، سندھ میں 33، کے پی کے میں تقریباً 35 افراد بھی شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں دیگر متعلقہ حکام کے علاوہ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں 207 نشیبی علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جہاں زیادہ پانی جمع ہو سکتا ہے۔ ان علاقوں سے بروقت پانی کے اخراج کے لیے ڈی واٹرنگ کا بندوبست کیا جارہا ہے۔

ان علاقوں میں ضلع جنوبی کے 56، ضلع غربی کے 17، ضلع وسطی میں 22، ضلع ملیر کے 32، ضلع کورنگی 16، ضلع کیماڑی 26 و ضلع شرقی کے 38 علاقے شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ابھی سے ضلع ملیر میں ایک، کورنگی میں 3، ضلع وسطی میں 7، ضلع شرقی میں 5، ضلع جنوبی میں 9، ضلع غربی اور ضلع کیماڑی میں 2، 2 مقامات ایسے ہیں جہاں نکاسی آب پر زیادہ توجہ دینی ہو گی۔ انہوں نے اجلاس کو یہ بھی بتایا کہ نکاسی آب کیلئے ابھی سے ٹاور، گورنر ہائوس، نرسری، اسٹار گیٹ، جناح ٹرمینل، کے ڈی اے چورنگی، کے ایم سی ہیڈ کوارٹر اور لیاقت آباد میں ڈی واٹرنگ مشین کا بندوبست کیا گیا ہے۔

اجلاس کو پی ڈی ایم اے کے حکام نے آگاہ کیا کہ انہوں نے کراچی میں فلک ناز، اللہ والا ٹائون، قیوم آباد، بلال چورنگی، غریب آباد، ناظم آباد انڈر پاس، لیاقت انڈر پاس، سخی حسن چورنگی، ناگن چورنگی، سہراب گوٹھ، جوہر چورنگی، نرسری، نیشنل اسٹیڈیم، یونیورسٹی روڈ، کے پی ٹی انڈر پاس، شاہین کمپلیکس، ایس آئی یو ٹی، سندھ اسمبلی، سب میرین انڈر پاس، ٹاور، یوسف گوٹھ، فور کے چورنگی، نیٹی جیٹی اور گلبائی جیسے حساس مقامات سے نکاسی آب کے لیے پمپس فراہم کر دیئے ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں کیے جانے والے فیصلوں کا عملی طور پر پتا اس وقت چلتا ہے جب معمولی بارش بھی عوام کیلئے عذاب بن جاتی ہے اور حکومت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔