علی جبران :
یہ ڈھاکہ کا گونوشستا یانگر اسپتال ہے۔ صبح سے حسینہ واجد کے پالتو اہلکاروں نے اس اسپتال کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ شام چار بجے کے قریب اس ناکہ بندی کی وجوہات کا علم ہوتا ہے، جب نیم برہنہ دو نوجوانوں کو اہلکار بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے لاتے ہیں اور گاڑی میں ڈال کر لے جاتے ہیں۔ دونوں طالب علم بری طرح کانپ رہے تھے۔ انہیں پتلونیں پہننے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
یہ 26 جولائی کا واقعہ ہے۔ اسپتال سے گرفتار زیرعلاج نوجوان طالب علم ناہید اسلام اور اس کا ساتھی آصف محمود تھے۔ کسے معلوم تھا کہ اس واقعہ سے محض دو ہفتے بعد ان طلبا کی تحریک، نام نہاد آئرن لیڈی حسینہ واجد کو استعفیٰ دے کر فرار ہونے پر مجبور کر دے گی۔ ہزاروں بے گناہوں کے خون کی مہندی لگانے والی حسینہ واجد آج سیاسی پناہ کی متلاشی ہے۔
ناہید اسلام آج بنگلہ دیشی طلبا کی تحرک کا چہرہ بن چکے ہیں، جسے بھارتی پٹھو حسینہ واجد حکومت نے خونریزی کے ذریعے دبانے کی ناکام کوشش کی۔ چند سر پھرے طلبا کی جانب سے محض دو ماہ قبل شروع کی جانے والی تحریک کا آغاز کوٹہ سسٹم کے خلاف ہوا تھا۔
’’اینٹی ڈسکریمینینشن اسٹوڈنٹ موومنٹ‘‘ کے بینر تلے اس تحریک کا آغاز 9 جون کو ہوا تھا، جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے دو ہزار کے قریب طلبا نے ہائیکورٹ کی جانب سے کوٹہ سسٹم بحال کرنے کے خلاف احتجاج کیا، اور حکومت کو کوٹہ سسٹم ختم کرنے کے لیے جون کے اواخر تک کا الٹی میٹم دیا تھا۔ لیکن مغرور حسینہ واجد نے اسے سیریس نہیں لیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس احتجاج نے ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی۔ حسینہ واجد کی حکومت نے سرکاری نوکریوں کا پینتیس فیصد حصہ نام نہاد آزادی کے ہیروز کی اولادوں کے لیے مختص کیا تھا، جن کا تعلق حسینہ واجد کی پارٹی عوامی لیگ سے تھا۔
دو ہزار اٹھارہ میں بھی اس امتیازی کوٹہ سسٹم کے خلاف زبردست طلبا تحریک چلی تھی۔ تب اس تحریک کی قیادت طالب علم رہنما نورالحق نور نے کی تھی اور وہ کوٹہ سسٹم ختم کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ تاہم رواں برس 5 جون کو ہائی کورٹ نے یہ سرکاری کوٹہ دوبارہ بحال کر دیا تھا۔ اس بار طلبا تحریک کی کمان نورالحق نور کے پیروکار ناہید اسلام نے سنبھالی، جو ڈھاکہ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے طالب علم ہیں اور ماسٹر کررہے ہیں۔ جب دو ہزار اٹھارہ میں نورالحق نور نے کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک چلائی تو اس وقت ناہید اسلام فرسٹ ایئر میں تھے۔
یوں اب انہوں نے کوٹہ مخالف تحریک کے دوسرے مرحلے کی قیادت کی۔ ان کے سینئر نورالحق نور تو محض کوٹہ سسٹم ختم کرانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے برعکس ناہید اسلام کی قیادت نے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک بربریت کا راج قائم کرنے والی حسینہ واجد کا تختہ الٹ دیا۔ یہ کارنامہ انہوں نے تنہا انجام نہیں دیا۔ ان کے ساتھ ستائیس اسٹوڈنٹ تنظیمیں تھیں۔ البتہ ناہید اسلام کی ولولہ خیز قیادت اس تحریک کی کامیابی کا سبب بنی۔ انہیں مختلف طلبہ تنظیموں میں قائدانہ عہدوں پر فائز لوگوں کا ساتھ حاصل رہا۔
کوٹہ سسٹم کے خلاف دو ہزار اٹھارہ میں کامیاب تحریک چلانے والے ناہید اسلام کے سینئر نورالحق نور کا تعلق گونو اودھیکار پریشد سے تھا۔ تاہم اختلافات کے باعث یہ طلبہ تنظیم دو دھڑوں میں بٹ گئی تو نورالحق نور کے پیروکار طلبہ نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فورس تشکیل دی۔ ان پیروکاروں میں ناہید اسلام مرکزی کردار تھے۔ محض گیارہ ماہ قبل چار اکتوبر دو ہزار تئیس کو قائم ہونے والی ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فورس کے ممبر سیکریٹری ناہید اسلام مقرر ہوئے۔ جبکہ کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک کے وہ کوآرڈی نیٹر تھے۔ انہیں حسنات عبداللہ، اختر حسین، سرجیس عالم، حسیب الاسلام اور آصف محمود جیسے دیگر کوآرڈی نیٹرز کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔
ڈھاکہ کے رہائشی ناہید اسلام کو اس دو ماہ کی تحریک کے دوران دو بار گرفتار کیا گیا۔ ایک بار بیس جولائی کو سپریم کورٹ میں کوٹہ سسٹم کی بحالی کے خلاف درخواست کی سماعت سے پہلے اور دوسری بار چھبیس جولائی کو جب وہ گرفتاری کے دوران کیے جانے والے تشدد کے سبب اسپتال میں زیرعلاج تھے۔
پہلی گرفتاری کے موقع پر ناہید اسلام کے والد بدرالعالم نے کہا تھا ’’میرا بیٹا امتیازی سلوک کے خلاف لڑ رہا ہے، اسے سپریم کورٹ کی سماعت سے پہلے اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے کا کہا جارہا تھا۔ انکار پر گرفتار کر لیا گیا۔‘‘ چار روز بعد ناہید اسلام کو بدترین تشدد کر کے نیم مردہ حالت میں پھینک دیا گیا تھا۔ دوسری بار اسپتال میں علاج کے دوران اٹھایا گیا۔ لیکن اس بار بھی ناہید اسلام نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا۔ اسپتال سے گرفتاری کے موقع پر ناہید اسلام کی بہن فاطمہ تسلیم بھی وہاں موجود تھی، جو طلبہ تحریک میں اپنے بھائی کے شانہ بشانہ رہی۔
دوسری گرفتاری کے بعد رہائی پر ناہید اسلام نے شاہ باغ میں جاری دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ ’’حکومت کے گرنے تک طلبہ دھرنا جاری رکھیں۔ ہم نے آج لاٹھیاں اٹھائی ہیں۔ اگر لاٹھی کام نہیں کرتی تو ہم ہتھیار اٹھانے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘ ناہید اسلام نے عوامی لیگ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے حسینہ واجد کو وارننگ دی اور کہا۔ ’’صرف فتح ہی ہمارا مقصد ہے۔ تمہیں فیصلہ کرنا ہے کہ تشدد اور خونریزی جاری رکھنا ہے یا طلبہ کے مطالبے کے مطابق استعفیٰ دینا ہے۔ اگر ہمیں اغوا، قتل یا دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تو پھر بھی تحریک جاری رہے گی۔ ہر گائوں، محلے اور گلی میں کمیٹیاں بنائی جائیں، جہاں بھی ہم پر حملہ ہو مزاحمت کریں گے۔‘‘
اس تقریر کے محض ایک ہفتے بعد ہی حسینہ واجد استعفیٰ دے کر بھارت فرار ہو گئی۔ چند روز پہلے کانپتے ہوئے اسپتال سے گرفتار ہونے والے ناہید اسلام کی زیرقیادت طلبہ آج اتنے طاقتور ہیں کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت بنانے کا اختیار حاصل کر لیا ہے اور اس کے لیے نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کا نام دیا ہے۔ یہ وہی ڈاکٹر یونس ہیں۔ جنہوں نے اپنی معاشی پالیسیوں کے سبب بنگلہ دیش میں غریبوں کی قسمت بدل دی تھی۔ ڈاکٹر یونس پر حسینہ واجد نے درجنوں مقدمات بنائے تھے، جس پر انہیں ملک چھوڑنا پڑا تھا۔