نواز طاہر
’’توہینِ شانِ رسالت اور دیگر اسلامی قوانین کو اقلیتوں کے خلاف قرار دینا دراصل مغربی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز کا ایجنڈا ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اقلیتوں کو جتنی آزادی اور حقوق پاکستان میں حاصل ہیں، دنیا میں کہیں نہیں‘‘۔ یہ کہنا تھا عبدالوارث کا، جو 2007ء میں مسیحی مذہب چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جب کہ ان کے والدین، بھائی اور دیگر رشتہ دار اب بھی مسیحی ہیں۔
چند روز قبل اقلیتیوں کے قومی دن کے موقع پر ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عبدالوارث کا کہنا تھا کہ ’’اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں پاکستان اور اسلام کے خلاف مذموم مہم چلانے والوں کا مشن خاص طور پر قانون توہینِ رسالت ختم کرانا ہے۔ حالاں کہ اس قانون کی روح، اسلام سے پہلے تورات، زبور اور انجیل میں بھی ملتی ہے۔ اگر اس کا خاتمہ کرنا ہے تو پھر کیا تورات، زبور اور انجیل کو بھی بدلنے کا مطالبہ کیا جائے گا؟ ایسا قطعاً نہیں۔ یہ قانون تو تینوں آسمانی مذاہب کی روح ہے۔ اس کے خلاف مشن میں سرگرم عناصر کے محرکات و مقاصد ہی کچھ اور ہیں۔
اسی طرح مذہب کی جبری تبدیلی کا واویلا ہی غلط ہے۔ یہ تبدیلی ترغیب سے ہوتی ہے اور یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس پر نہ تو کسی کو استحصال کرنے کا ملزم ٹھہرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی منفی پروپیگنڈا تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ مگر اب اس پروپیگنڈے میں زور دکھائی دے رہا جس کا ہر پاکستانی اور خاص طور پر مسیحی برادری کو ادراک کرنا ہوگا‘‘۔
واضح رہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد عبدالوارث نے کراچی میں ہونے والے ایک اقلیتی مارچ میں ’’میرا مذہب ، میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کے جواب میں ’’قبولِ اسلام، میری مرضی‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ عبدالوارث نے بتایا ’’حالیہ دنوں اسلام آباد میں ایک بڑا اجتماع ہوا تھا، جس میں کئی ممالک کے سفارت کاروں اور عالمی تنظیموں کے عہدے داروں نے بھی شرکت کی۔ اس اجتماع میں قانون توہینِ رسالت کے خاتمے سمیت دیگر اسلامی قوانین پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اس کے پرت وقت کے ساتھ ساتھ کھلیں گے۔ تاہم پاکستانی حکومت کو ایسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور تحقیقات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیوں کہ ان دنوں اقلیتوں کو حقوق نہ ملنے کا چرچا کیا جا رہا ہے، جو حقائق کے برعکس ہے۔ میرے خاندان کے تمام لوگ اور دیگر رشتے دار تاحال عیسائی ہیں اور انہیں پاکستان میں کوئی مسئلہ نہیں۔ جو مسائل پوری قوم کو درپیش ہیں، اس میں مذہب کا کوئی تعلق اور تخصیص نہیں۔ آپ بتائیں، ایسے خصوصی حقوق کیا کسی اور ملک میں اقلیتوں کو حاصل ہیں کہ انہیں سرکاری ملازمتوں میں خاص کوٹہ حاصل ہو؟ جب کہ اس کوٹے کو پُر کرنے کی حالت یہ ہے کہ دو ہزار اٹھارہ میں یہ کوٹہ اس لیے آدھے سے بھی زیادہ خالی رہ گیا کہ مطلوبہ اقلیتی امیدوار دستیاب ہی نہیں تھے۔
درحقیت پاکستان میں اقلیتوں کو خود اپنی صفوں میں موجود کچھ مفاد پرست اور عاقبت نا اندیش لوگوں سے خطرہ ہے جو بھارتی، قادیانی، اسرائیلی اور مغربی طاقتوں سے پیسہ لے کر مکروہ ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ اقلیتوں، خصوصاً عیسائیوں کے ساتھ بھارت میں کیا ہوا؟ یہ سب کے سامنے ہے۔ ان کے گھر اور چرچ جلائے گئے، خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ یہاں تک کہ زندہ جلایا گیا۔ تب وہاں بسنے والے عیسائیوں کو یاد آیا کہ ستیا پرکاش سنگھا (ایس پی سنگھا) تحریکِ پاکستان کے حامی کیوں تھے؟ حالاں کہ تقسیم ہند سے پہلے دیوان بہادر ایس پی سنگھا کو اپنی عیسائی برادری کے کئی رہنمائوں کی مخالفت کا سامنا تھا۔ لیکن وہ سمجھتے تھے کہ عیسائیوں کیلئے پاکستان ہی محفوظ ریاست ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں عبدالوارث کا کہنا تھا ’’اگر پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہیں اور خاص طور پر گرجا گھر جلائے جانے کو پروپیگنڈے کی بنیاد بنایا جاتا ہے تو کیا پاکستان میں مساجد محفوظ ہیں؟ مساجد اور گرجا گھر جلانے والے نہ تو مسلمان اور نہ ہی عیسائی۔ بلکہ یہ دہشت گرد ہیں اور کا کوئی مذہب اور عقیدہ نہیں۔ دوسری جانب بعض این جی اوز زدہ مسیحی افراد ڈالروں کی ترغیب سے قادیانیوں کی حمایت اور ان کا ایجنڈا آگے بڑھانے میں معاون بنے ہوئے ہیں۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ مرتد مرزا غلام احمد قادیانی نے حضرت مریمؑ اور حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کی شان میں بھی (نعوذباللہ) گستاخی کا ارتکاب کیا تھا‘‘۔
اس ضمن میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’قانونِ توہینِ رسالت ختم کرانے کی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عیسائی اور یہودی اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ جبکہ ان دونوں آسمانی مذاہب میں تکریم انبیائے کرام کی ہدایات شامل ہیں۔ اور پھر مقدسات کے بارے میں تو قانون کا سیکشن دو سو پچانوے، برٹش انڈیا دور میں گورے نے بنایا تھا۔
بعد ازاں اسی قانون میں ذیلی شق ’سی‘ کا اضافہ کرکے بہتری لائی گئی۔ اس قانون پر اصل تکلیف قادیانیوں کو ہے۔ یہودی اور مسیحی برادری کو تو اس قانون کی پرُ زور حمایت کرنی چاہیئے کہ اس کی روح زبور، تورات اور انجیل میں بھی ملتی ہے۔ جبکہ قران ِحکیم جو مکمل ضابطہ حیات ہے، اس میں ہر ایک چیز کا احاطہ اور رہنمائی موجود ہے۔ جو لوگ قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کا واویلا کرتے ہیں تو کیا قتل اور دیگر معاملات سے متعلق قوانین کا غلط استعمال نہیں دیکھتے۔
کیا ان قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ تو جواب ’نہیں‘ میں ہے۔ اصل معاملہ قادیانیوں اور اسلام و پاکستان مخالفین کا ایجنڈا ہے۔ میں پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ سازش کے تحت گمراہی پھیلانے والوں اور بیرونی دشمنوں کے فنڈ سے ملک کا وقار مجروح کرنے والوں کی تحقیقات کریں۔ جیسا کہ کراچی میں ٹرانس جینڈرز کیلئے بنائے گئے گرجا گھر کے بارے میں ایک ٹرانس جینڈر نے ہی نشاندہی کی کہ یہ چرچ بیرونی امداد سے بنایا گیا اور فنڈز میں خرد برد بھی کی گئی‘‘۔