فیض حمید وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش کرسکتے ہیں جو کامیاب نہیں ہوگی، فائل فوٹو
 فیض حمید وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش کرسکتے ہیں جو کامیاب نہیں ہوگی، فائل فوٹو

’’عمران خان سے بشریٰ کی شادی فیض حمید نے کرائی تھی‘‘

علی جبران :
سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے۔ چند روز پہلے آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز میں فیض حمید کو فوجی تحویل میں لئے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے فیض حمید کی مبینہ سرگرمیوں کو لے کر ولاگز، ٹاک شوز اور خبروں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ اس بارے میں ’’امت‘‘ نے معروف دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ سے خصوصی انٹرویو کیا، جس میں چند نئے انکشافات بھی شامل ہیں۔ یہ بات چیت سوال و جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے۔

س: فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے اعلان کے بعد سے مصدقہ اور غیر مصدقہ خبروں کی بہتات ہے۔ جو باتیں کی جارہی ہیں ان میں کتنی صداقت ہے؟

ج: بہت سی باتیں درست ہیں اور کئی ایسی ہیں کہ جو اب تک میڈیا میں نہیں آئی ہیں۔ اس سارے معاملے کو سمجھنے کے لیے تھوڑا بیک گراؤنڈ کا ذکر ضروری ہے۔ فیض حمید کی ایک سرگرمیاں تو وہ ہیں جو انہوں نے سروس میں رہتے ہوئے کیں۔ دوران سروس ان سرگرمیوں کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح عمران خان کو اقتدار میں لا کر وہ اگلے آرمی چیف بن سکیں۔ مثلاً 2017ء میں جب فیض حمید ڈی جی سی آئی ایس آئی تھے تو ٹی ایل پی کا دھرنا کرایا گیا۔ تاکہ نون لیگ کی حکومت کو گراکر تحریک انصاف کو اقتدار میں لایا جا سکے۔

پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ ہوا۔ انہیں ڈسمس کروایا گیا۔ ان سب کے پیچھے فیض حمید تھے۔ اسی طرح پاناما کیس کی کارروائی میں بھی فیض حمید کا رول تھا۔ اس کیس میں ان کا چیف جسٹس ثاقب نثار سے مکمل گٹھ جوڑ تھا۔ اس دور کے ججز کا پورا ہم خیال گروپ ان کے رابطے میں تھا اور ان کی ہدایات پر عمل کرتا رہا۔ یہ گٹھ جوڑ، کھوسہ اور بندیال کے آنے کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔ یہ سارے وہی ججز تھے جو ثاقب نثار کے ہم خیال تھے اور دونوں چیف جسٹس بنے۔

فیض حمید، شہزاد اکبر کو بھی کنٹرول کرتے تھے اور نیب اور ایف آئی اے بھی ان کے اشاروں پر چلتی تھیں۔ ٹاپ سٹی جیسا کرپشن کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا تو تب فیض حمید ڈی جی سی آئی ایس آئی تھے۔ بعد ازاں وہ ڈی جی آئی ایس آئی بن گئے۔ قصہ مختصر یہ ساری سرگرمیاں اس وقت کی ہیں جب فیض حمید سروس میں تھے۔ ٹاپ سٹی اسکینڈل کے علاوہ اصل معاملہ جو فیض حمید کے گلے پڑ رہا ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی غیر قانونی سیاسی سرگرمیوں کا ہے، جسے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔

س: فیض حمید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عمران خان اور بشریٰ بی بی دونوں کے قابل اعتماد تھے۔ اس کا پس منظر کیا ہے ؟

ج: بشریٰ بی بی کے ساتھ فیض حمید کا دو ہزار سولہ میں ہی لنک بن گیا تھا۔ وہ عمران خان کے ساتھ ان کی شادی کرانے کے مرکزی کردار تھے۔ ان کی کاوشوں کے بغیر یہ شادی ممکن نہیں تھی۔ بشریٰ بی بی سے عمران خان کی شناسائی 2015ء میں ہوئی جو بعد ازاں باقاعدہ ملاقاتوں میں بدل گئی۔ فیض حمید ان تمام معاملات سے آگاہ تھے اور وہ تب سے ہی ان دونوں کے قریب تھے اور پھر انہوں نے دونوں کی شادی کو ممکن بنانے میں اپنا رول ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں بذریعہ بشریٰ بی بی ان کا اثر و رسوخ عمران خان اور پی ٹی آئی پر بڑھ گیا۔ اس کا فائدہ وہ اپنی سروس کے دوران اور اس کے بعد بھی مسلسل اٹھاتے رہے۔ فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کا اتنا بڑا اسکینڈل جو پی ٹی آئی دور حکومت میں اسٹیبلش ہو چکا تھا اور سپریم کورٹ جا پہنچا تھا۔ اس کے باوجود عمران خان نے بطور وزیر اعظم جب اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل عاصم منیر کو ہٹایا تو ان کی جگہ فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیا۔ اس میں بشریٰ بی بی کی آشیرباد شامل تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فیض حمید دونوں میاں بیوی کے کتنے منظور نظر تھے۔

س: پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد پارٹی پر فیض حمید کی گرفت کتنی مضبوط تھی؟

ج: بہت مضبوط رہی۔ سارے پارٹی معاملات ان کے مشورے سے چلائے جا رہے تھے۔ پی ٹی آئی پر فیض حمید کا اثر و رسوخ بشریٰ بی بی کی وجہ سے تو تھا ہی۔ انہوں نے عمران خان کی بہنوں سے بھی اچھے تعلقات بنا لئے تھے۔ عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل سمیت مارچ اور اکتوبر میں لانگ مارچ سمیت جتنے فیصلے کیے۔ ان کے پیچھے فیض حمید ہی تھے۔

س: آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ لانگ مارچ کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ بھی عمران خان سے فیض حمید نے کرایا تھا؟

ج: جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ پی ٹی آئی کے 26 مارچ اور اکتوبر والے دونوں لانگ مارچ کے پیچھے فیض حمید تھے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی طرح پریشر بڑھا کر جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکا جا سکے۔ پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی حکومتیں بھی عمران خان نے فیض حمید کے کہنے پر تحلیل کی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی وفاق میں حکومت گر جائے گی۔ فیض حمید، عمران خان کے غیر اعلانیہ ایڈوائزر بھی تھے اور ان کے تمام منصوبوں کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ دھرنوں اور لانگ مارچ سے لے کر 9 مئی کے حملوں سمیت پی ٹی آئی کی ہر کارروائی کی اسٹرٹیجک منصوبہ بندی فیض حمید نے تیار کرکے دی۔ عمران خان کے جیل جانے کے بعد پارٹی کے تقریباً تمام معاملات درپردہ فیض حمید نے سنبھال لئے تھے۔

جب تک بشریٰ بی بی گرفتار نہیں ہوئی تھیں تو ان کی فیض حمید سے مشاورت ہوتی رہتی تھی۔ تاہم بشریٰ کی گرفتاری کے بعد فیض حمید پردے کے پیچھے رہ کر تن تنہا پی ٹی آئی کے تمام معاملات چلا رہے تھے، جس کی توثیق عمران خان کیا کرتے تھے۔ چونکہ فیض حمید نے پس پردہ پارٹی کمان سنبھال رکھی تھی۔ لہٰذا انہیں کسی بھی پارٹی فیصلے سے متعلق اپنی ہدایت پر عمل کرانے کے لیے عمران خان سے کہلوانا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ خود تو اڈیالہ جیل نہیں جا سکتے تھے۔ چنانچہ بشریٰ بی بی کی گرفتاری کے بعد وہ یہ پیغام رسانی رؤف حسن کے ذریعے کرتے تھے۔ عمران خان کے لیے فیض حمید کی جو بھی ہدایات ہوتی تھیں۔ وہ رؤف حسن جیل میں ملاقات کے دوران عمران خان کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ پاکستان سے پی ٹی آئی کی ساری میڈیا اور سوشل میڈیا وار بھی رؤف حسن چلا رہے تھے۔

س: آپ کے بقول فیض حمید پس پردہ عمران خان کے اسٹرٹیجک ایڈوائزر بھی تھے تو عمران خان جو بیانیہ بناتے رہے، کیا اس میں بھی فیض حمید کا کا کوئی رول رہا؟

ج: بالکل رہا۔ سائفر کو امریکی سازش سے جوڑنے سمیت عمران خان نے اب تک جتنے بیانیے دیئے، ان سب کے موجد فیض حمید تھے۔ وہ جن عہدوں پر رہے، انہیں بخوبی معلوم تھا کہ مضبوط بیانیہ کیسے بنایا جاتا ہے۔

اسی طرح فوج میں فیض حمید جن افسروں سے پرخاش رکھتے تھے، انہیں ’ڈرٹی ہیری‘ اور دیگر غلط ناموں سے پکارنے کا آئیڈیا بھی فیض حمید کا دیا ہوا تھا جسے عمران خان نے اختیار کیا۔ بیرون ملک بیٹھے بھگوڑے عادل راجہ، حیدر مہدی، شہزاد اکبر اور چند نام نہاد صحافیوں سمیت ریاست مخالف پروپیگنڈہ میں مصروف دیگر عناصر کو فوج کے اندر کی خبریں بھی فیض حمید پہنچایا کرتے تھے۔ جس میں وہ نوے فیصد جھوٹ شامل کرکے آگے پھیلاتے۔

وزیرآباد میں عمران خان پر حملے سے لے کر ارشد شریف کے قتل اور 9 مئی سمیت دیگر معاملات سے فیض حمید کا لنک بھی جلد سامنے آئے گا۔ ان تمام معاملات پر اداروں نے مکمل نظر رکھی ہوئی تھی اور مسلسل فیض حمید کی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جارہا تھا۔ فوری ہاتھ اس لئے نہیں ڈالا گیا کہ پورا نیٹ ورک بے نقاب کرنا تھا۔ اداروں کا ایک اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ میں مثال دیتا ہوں۔ کلبھوشن کی سرگرمیوں کا اداروں کو اس کی گرفتاری سے دو تین سال پہلے ہی پتا چل گیا تھا۔ تاہم اسے فوری پکڑنے کے بجائے اس کو مسلسل مانیٹر کیا جاتا رہا۔ مقصد پورے نیٹ ورک کا پتا چلانا تھا۔ اور جب ادارے پورے نیٹ ورک تک پہنچ گئے تو نہ صرف کلبھوشن کو دھر لیا گیا۔ بلکہ اس کے پورے نیٹ ورک کا خاتمہ کردیا گیا۔

س: فیض حمید پر عدالتوں کو مینیج کرنے کے الزامات بھی لگتے رہے؟

ج: یہ اب فیض حمید ہی بتائیں گے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں میں تقسیم کیسے ہوئی اور اس میں ان کا کیا رول تھا۔ یہ سب کچھ بتائیں گے اور وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش بھی کریں گے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انہیں وعدہ معاف گواہ بنایا جائے گا۔ کیونکہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ فیض حمید یقیناً 9 مئی کے حوالے سے بھی اہم انکشافات کریں گے جس کے بعد عمران خان کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ اور ثابت ہوگا کہ اس سانحہ کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ اب تک تو عمران خان اس سے انکار کرتے آئے ہیں۔ لیکن فیض حمید کی ممکنہ گواہی کے بعد وہ انکار کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔

اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ 9 مئی کا اسٹرٹیجک پلان فیض حمید نے بنا کر دیا تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی اپنے طور پر ایسے حملوں کی اسٹرٹیجی بناسکتے تھے۔ یہ فیض حمید ہی تھے جنہوں نے پی ٹی آئی کو 255 عسکری ٹارگٹ بتائے تھے اور ساتھ ہی بغاوت میں کامیابی کا یقین دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمیں اندر سے بھی سہولت کاری حاصل ہے، تمہیں کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔

س: یہ سوال بھی اٹھایا جاتا رہا کہ بشریٰ بی بی کو گرفتاری کے بعد جیل کے بجائے بنی گالا کیوں رکھا گیا تھا؟ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ج: بشریٰ بی بی کو جیل کے بجائے بنی گالہ میں رکھنے کے پیچھے ایک حکمت عملی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بشریٰ کے فیض حمید سے خفیہ رابطے بحال رہیں۔ اگر بشریٰ بی بی کو براہ راست جیل بھیج دیا جاتا تو یہ رابطے منقطع ہوجاتے۔ چنانچہ انہیں بنی گالہ شفٹ کیا گیا تاکہ پس پردہ سازشوں کے مزید شواہد حاصل کیے جاسکیں۔ ساتھ ہی رئوف حسن اور دیگر پر بھی ہاتھ ڈالنے میں دانستہ تاخیر کی گئی۔ تاکہ اس پورے نیٹ ورک کی تہہ تک پہنچا جائے۔ معلومات و شواہد ایک رات میں ہی اکٹھے نہیں ہوگئے۔ کھوج لگانے کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ جبکہ اس ٹریپ کو مخالفین اور حامیوں کی اکثریت بزدلی سمجھتی رہی۔
س: نواز شریف کو علاج کے لیے جیل سے نکال کر لندن بھیجنے کے حوالے سے جنرل باجوہ کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس میں بھی فیض حمید کا رول تھا؟
ج: یہ درست بات ہے کہ دوران قید نواز شریف کو جیل سے نکلوا کر لندن جنرل باجوہ نے نہیں بلکہ فیض حمید نے بھجوایا تھا۔ یہ اقدام ان کے ڈبل نہیں، ٹرپل گیم کا حصہ تھا، جس کے تحت وہ ایک طرف جنرل باجوہ کو آسرا دے رہے تھے کہ ان کی ایکسٹینشن کرائیں گے۔ لہٰذا نواز شریف کو باہر بھجوا کر وزیر اعظم شہباز شریف سے تعلقات بہتر رکھنا ضروری ہے۔ حقیقت میں وہ نواز شریف پر احسان کرکے اپنے آرمی چیف بننے کا راستہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ اور تیسری طرف عمران خان کے اسٹرٹیجک ایڈوائزر بن کر ان کے تمام پارٹی فیصلوں پر حاوی تھے۔