وزیر اعلیٰ گنڈا پور کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے اراکین کے رابطے بھی جاری ہیں، فائل فوٹو
 وزیر اعلیٰ گنڈا پور کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے اراکین کے رابطے بھی جاری ہیں، فائل فوٹو

خیبرپختونخوا کابینہ میں مزید استعفوں کا امکان

نمائندہ امت :
خیبرپختونخوا حکومت میں اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے خلاف مخالف اراکین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں وزیراعلیٰ کے خلاف یہ اراکین تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتے ہیں۔ جبکہ وزیراعلیٰ کی جانب سے بھی حمایت میں کمی کے بعد استعفیٰ پر غور کیا جا سکتا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ شکیل خان کے بعد وزیر تعلیم فیصل ترکئی ، وزیر صحت قاسم شاہ ، وزیر خوراک ظاہر شاہ طورو کے مستعفی ہونے کے بھی امکانات بڑھ گئے ہیں اور بعض ذرائع کے مطابق وزیرتعلیم اور وزیر صحت آئندہ چوبیس گھنٹوں میں استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ ان کا استعفیٰ رکوانے کے لئے صوبائی کابینہ کے اراکین سرگرم ہو گئے ہیں جبکہ کئی اراکین اسمبلی نے وزارت مواصلات ، وزارت صحت اور وزارت تعلیم کے لئے ابھی سے لابنگ شروع کر دی ہے۔ ناکامی پر وہ بھی وزیراعلیٰ کے مخالف گروپ میں شامل ہو سکتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ پارٹی میں اختلافات کے سبب سابق سینئر وزیر عاطف خان اور سابق وزیر بلدیات شہرام خان ترکئی کو ایک سازش کے تحت صوبائی ٹکٹ سے محروم کرنا تھا اور انہیں قومی اسمبلی سے ٹکٹ دے کر صوبائی اسمبلی میں ایک توانا آوازوں کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق شکیل خان سمیت دیگر مخالف گروپ کو عاطف خان ، اسد قیصر اور شہرام ترکئی کی حمایت حاصل ہے اور پی ٹی آئی کے مردان ، مالاکنڈ اور ضم اضلاع کے اراکین ایک بڑے گروپ کے طور پر وزیراعلیٰ کی مخالفت میں سامنے آسکتے ہیں ۔

اگر وزیراعلیٰ کو پھر بھی بانی پی ٹی آئی اور دیگر رہنمائوں کی حمایت رہی تو سینیٹ کے ممکنہ انتخابات میں جو آئندہ دو ماہ کے دوران منعقد ہونے ہیں کیونکہ مخصوص نشستوں کی وجہ سے خیبرپختونخوا کی گیارہ نشستوں پر انتخابات نہیں ہوسکے اس انتخاب میں پی ٹی آئی کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ پارٹی کے اندر دھڑے بندی سے امیدواروں پر اختلاف پیدا ہو جائے گا ۔

دوسری جانب مستعفی وزیر شکیل خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ تمام دستاویزات اور کرپشن کے شواہد صوبائی اسمبلی کے فلور پر پیش کریں گے تاکہ آئندہ کے لئے بھی ریکارڈ کا حصہ بن جائے ۔ شکیل خان کا کہنا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدے کئے تھے اور عوام نے تحریک انصاف کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ووٹ دیا لیکن صوبائی حکومت اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ گئی ہے ۔ صوبائی حکومت کی تمام سطحوں پر خراب حکمرانی نے پارٹی کارکنوں کی صفوں اور کارکنوں میں پارٹی پروگرام اور منشور کی شکل کو تباہ کر دیا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے آپ کو تمام فورمز پر احتساب کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں درج نا انصافی، بیڈ گورننس ، بد انتظامی اور بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کروں گا اور کابینہ سے استعفیٰ دینے کی وجوہات اسمبلی فلور سے بیان کروں گا ۔

یاد رہے کہ صوبائی حکومت کے ساتھ صوبائی وزیر کا تنازع تقریبا ہفتے قبل سامنے آیا تھا ۔ انہوں نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ ایک متوازی حکومت قائم ہے اور وزیراعلیٰ علی امین کی جگہ کوئی اور حکومت چلا رہا ہے ۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے صوبے میں جاری کرپشن کے اشارے بھی دیئے تھے ۔ اس پریس کانفرنس کے بعد بہتر طرز حکمرانی کے لئے قائم صوبائی کمیٹی کے سامنے بھی وہ پیش ہوئے تھے ۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے سابق وزیر شکیل خان کو کابینہ سے ہٹانے سے متعلق گڈ گورننس کمیٹی کا ردعمل سامنے آگیا جس میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر شکیل خان کے خلاف شکایات پر انکوائری کی گئی ۔ گڈ گورننس کمیٹی کا کہنا ہے کہ شکیل خان اور سیکرٹری ڈاکٹر اسد کے بیانات بھی قلمبند کئے گئے تاہم مالی بے ضابطگیاں، اختیارات کے ناجائز استعمال پر صوبائی وزیر کے خلاف سفارشات مرتب کی گئیں ۔

صوبائی وزیر پر الزامات سچ ثابت ہوئے اور گڈ گورننس کمیٹی کی سفارشات پر صوبائی وزیر شکیل خان برطرف ہوئے اورکمیٹی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے احکامات کی توثیق کر دی۔ تاہم گڈ گورننس کمیٹی کا موقف سامنے آنے کے بعد کمیٹی پر بھی وزرا اور اراکین کا اعتماد ختم ہورہا ہے ۔پی ٹی آئی کے قریبی ذرائع کے مطابق یہ کس طرح کی کمیٹی ہے کہ عمران خان نے جس شخص کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر کمیٹی بنائی اسی شخص کو فارغ کر دیا ۔

ایسا لگ رہا ہے کہ پرویز خٹک کے دور سے پارٹی کے اندر موجوددھڑا بندیاں دوبارہ سر اٹھا رہی ہیں اور شاہ فرمان ، محمود خان دور میں اپنے گروپ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ جب شاہ فرمان گورنر تھے تو پرویز خٹک کے دور میں ان کے منظور کردہ کئی منصوبوں کو محمود خان حکومت کے وزرا نے واپس کر دیا تھا ۔ عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے پارٹی کے اندر اختلافات اب کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور پارٹی کئی گروپوں میں تقسیم ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان میں بھی شدید مایوسی پائی جاتی ہے کیونکہ عوام کے ساتھ ساتھ کارکنوں سے کئے گئے وعدے بھی پورے نہیں کئے جارہے ہیں ۔