نواز طاہر:
تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ہوگیا ہے اور اس کشتی کے سواروں کی کنارے تک پہنچنے سے پہلے تعداد بتدریج کم ہونے کی بازگشت سنی جانے لگی ہے۔ بعض مبصرین یہ کشتی ڈوبتی قرارے رہے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر ذمہ داران اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور انہوں نے تبصرہ ’نوکمنٹس‘ تک محدود کرلیا ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے جب سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا تھا۔ تب سے پی ٹی آئی کے اندر پالیسی معاملات پر بحث چھڑ گئی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے اس بحث کا رخ تبدیل کردیا۔ لیکن اس میں ٹکٹوں کی تقسیم پر پھر سے لڑائی سامنے آئی اور اسی دوران اس کا سخت گیر رویہ بھی پارٹی میں اختلافات کا باعث بنا۔ لیکن ریٹائرڈ عسکری افسر فیض حمید کی گرفتاری کے بعد پارٹی میں خوف کی سی صورتحال ہے اور یہ تصور کیا جانے لگا ہے کہ جن رہنمائوں کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ ان پر مزید سختی بھی ہوسکتی ہے۔
جس پر انہوں نے کچھ ’ذرائع‘ استعمال کرتے ہوئے ایک قدم پیچھے چلنا شروع کردیا ہے اور اگلے مرحلے میں وہ مزید پیچھے ہٹتے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے اراکین پر سختی کا احساس پنجاب اسمبلی میں باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے اور یہیں پر ردِ عمل بھی شدت کے ساتھ دینے کی پالیسی اختیار کی گئی تھی۔ تاہم سنجیدہ اور پارلیمانی رویہ رکھنے والے کچھ پرانے اور نئے اراکین نے سخت گیر رویے کے بجائے معتدل رویہ اپنانا چاہا تو انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ جسے بانی پارٹی کی حقیقی پالیسی اور اس کی عکاسی سے تعبیر کیا گیا۔
اس کے نتیجے میں بیشتر اراکین نے خاموشی سادھ لی۔ جنہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ وفاداری نہیں نبھا رہے اور اب کچھ حلقوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے معاملات بہتر ہونے کا امکان ہے۔ جس میں پیش رفت کے بعد پوری طرح وفاداری نہ نبھانے والوں کیلئے جگہ کم پڑ جائے گی۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق یہ کچھ لوگوں کی خود ساختہ پالیسی تھی۔ جس نے مشکلات میں اضافہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پنجاب اسمبلی کے باہر عومی اسمبلی لگائی جاتی رہی تو وہاں اراکین کے بجائے دیگر رہنمائوں اورکارکنان کا مجمع لگایا گیا اور اراکین اسمبلی نے وہاں کم تعداد میں شرکت کی۔ زیادہ تر اراکین اس کیمپ کے بجائے اسمبلی سیکریٹریٹ کی راہداریوں اور پارکنگ میں اپنی گاڑیوں میں بیٹھے دکھائی دیے۔
اسی دوران پنجاب اسمبلی کی ’’ایتھکس کمیٹی‘‘ کے اجلاس کے بعد کچھ اراکین کیلئے سخت گیر رویہ اختیار کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ نون لیگ کے رکن جاوید چوہدری کے مطابق ایوان میں اپوزیشن کو جتنی چھوٹ دی گئی۔ وہ اس سے مثبت فائدہ نہیں اٹھا سکی اور ہلے گلے پر ہی زور دیا۔ لیکن ایتھکس کمیٹی بننے کے بعد کچھ اراکین اب ایک طرح سے خود کو فالتو سمجھنے لگے ہیں۔ دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کے بیانات نے بھی کچھ اراکین میں بد دلی پیدا کی اور اسی دوران پی ٹی آئی پر بڑھنے والی سختیوں کی’اطلاعات‘ کے بعد کشتی میں پانی بھرنے کے خدشات بڑھ گئے تو سب سے پہلے پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیما نی لیڈر حافظ فرحت نے اعلانیہ چھلانگ لگادی اور پالیمانی لیڈر کی ذمہ داریاں جاری رکھنے سے معذرت کرلی۔
بعد ازاں فیض حمید کو حراست میں لئے جانے پر پی ٹی آئی کے اہم اور متحرک حلقوں میں ایک نئی پیغام رسانی شروع ہوئی اور پارٹی سے خاموشی کے ساتھ پیچھے ہٹنے کا عمل شروع ہوگیا۔ کچھ نے اعلانیہ معذرت کرلی۔ جس میں قابلِ توجہ سابق وزیر خزانہ حماد رضا کا پارٹی کی ذمہ داریاں نبھانے سے معذرت نامہ ہے۔
واضح رہے کہ چودہ اگست تک پارٹی کو ان کے فیصلے کا علم ہوچکا تھا اور اس کا تاثر دور کرنے کیلئے ایک ایسا ویڈیو کلپ جاری کیا گیا۔ جس میں وہ پی ٹی آئی کے رہنما شوکت بسرا کے ساتھ موٹر سائیکل پر دکھائی دیئے تھے اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے روپوشی ختم کر دی ہے اور منظرِ عام پر آگئے ہیں۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ پارٹی پالیسی سے انحراف کے بعد کیا۔ پی ٹی آئی کی کشتی سے اترنے والوں کے بارے میں پی ٹی آئی کے ایک رکن پنجاب اسبلی نے بتایا کہ وہ اپنے مقدمات کی وجہ سے پریشان تھے۔ ایک اور رکن نے اس کی تصدیق کی۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ایتھکس کمیٹی بننے کے بعد ایسے شدت پسندانہ رویے کی گنجائش نہیں رہی۔ جو پی ٹی آئی کے کچھ اراکین اختیار کیے ہوئے تھے۔ بانی پی ٹی آئی کے آبائی ضلع میانوالی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ پارٹی کی پالیسی پہلے دن کی طرح آج بھی نظرثانی کا تقاضا کرتی ہے۔ عمران خان کے نادان دوست انہیں بہت بُرے مقام تک لے جائیں گے۔ البتہ اس میں خود بانی پی ٹی آئی نے بھی یہ ذمہ داری ادا نہیں کہ وہ اپنے نادان دوستوں میں تمیز کرتے۔