پیجر پھٹنے کے واقعات شام میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں، فائل فوٹو
پیجر پھٹنے کے واقعات شام میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں، فائل فوٹو

پیجرز میں دھماکہ خیز مواد موساد نے نصب کیا تھا

میگزین رپورٹ :
لبنان میں پیجرز کے ذریعے ایک بڑا حملہ کیا گیا۔ جس کے باعث تادم تحریر دس سے زائد لبنانی شہید اور ایک ہزار سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جن میں سے اکثر کی حالت تشویش ناک ہے۔ شہدا اور زخمیوں میں بڑی تعداد حزب اللہ کے فائٹرز اور ارکان کی ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ لبنان میں منگوائے گئے پیجرز میں دھماکہ خیز مواد موساد نے نصب کیا تھا اور اسے اس لئے اڑایا گیا کہ اسے خدشہ تھا کہ حزب اللہ کو مواصلاتی آلات میں بارودی مواد نصب کرنے کی اطلاع مل چکی ہے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہنگری سے منگوائے گئے پیجرز کی تازہ کھیپ میں 20 گرام باردوی مواد موجود تھا۔ پیجرز تائیوان کی کمپنی کے بتائے گئے تھے۔ تاہم تائیوان کی کمپنی گولڈ اپولو کے بانی ہسو چنگ کوانگ نے گزشتہ روز (بدھ کو) صحافیوں کو بتایا کہ لبنان میں دھماکوں سے پھٹنے والے مواصلاتی آلات (پیجر) ان کی کمپنی نے تیار نہیں کیے۔ بلکہ انہیں یورپ میں ایک کمپنی نے بنایا تھا۔ البتہ یہ یورپی کمپنی تائیوانی کمپنی کا ٹریڈ مارک استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے۔

ادھر تائیوان کی وزارت اقتصادیات نے پیجرز کی لبنان کو براہ راست برآمد کا ریکارڈ ہونے کی تردید کر دی ہے۔ وزارت کے مطابق پیجر بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ غالباً آلات میں ترمیم ان کے برآمد کیے جانے کے بعد کی گئی۔ بعد ازاں ایک دوسرے بیان میں تائیوانی گولڈ اپولو کمپنی نے بتایا کہ ’’بی اے سی کنسلٹنگ‘‘ کمپنی جس کا صدر دفتر ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ میں واقع ہے، اس تائیوانی کمپنی کا ٹریڈ مارک استعمال کرنے کا پرمٹ رکھتی ہے۔ مزید یہ کہ ہنگری کی کمپنی نے ہی دھماکوں میں استعمال ہونے والے ‘پیجر’ آلات تیار کیے اور ‘AR-924’ ماڈل کے پیجرز کی تیاری اور فروخت ’’بی اے اسی کنسلٹنگ‘‘ کے ذریعے ہوتی ہے۔

اس سے قبل امریکی حکام نے انکشاف کیا تھا کہ حزب اللہ نے دھماکا خیز مواد کے حامل ’’پیجر‘‘ تائیوان سے منگوائے تھے۔ تاہم لبنان پہنچنے سے قبل ان میں چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق مذکورہ آلات میں رکھے جانے والے دھماکا خیز مواد کا وزن تقریبا ایک سے دو اونس تھا۔ حزب اللہ نے تائیوان کی کمپنی گولڈ اپولو سے تین ہزار آلات خریدے جو اسے اپنے حامیوں میں تقسیم کرنا تھے۔

برطانوی فوج کے سابق اہلکار اور ہتھیاروں کے ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ممکنہ طور پر پیجرز میں 10 سے 20 گرام دھماکہ خیز مواد تھا۔ بارودی مواد کو ایک جعلی الیکٹرونک پرزے کے اندر چھپایا گیا ہوگا۔ ان کا خیال ہے کہ ان پیجرز کو ایک سگنل (جسے ایلفا نیومیرک ٹیکسٹ میسج کہتے ہیں) کے ذریعے فعال کیا گیا۔ جس کے بعد اسے استعمال کرنے پر ان میں دھماکے ہوئے۔ حال ہی میں ہیکرز نے مینوفیکچرنگ کے دوران پروڈکٹس تک رسائی حاصل کی۔ جس سے ہائی پروفائل واقعات رونما ہوئے۔ تاہم ان حملوں میں اکثر سافٹ ویئر تک محدود رہا جاتا ہے۔

ہارڈ ویئر کی مدد سے کیے جانے والے سپلائی چین حملے بہت غیر معمولی ہیں اور ان کے لیے ضروری ہے کہ آپ ڈیوائس تک رسائی حاصل کریں۔ سیکورٹی ماہر دمتری الپرووچ نے اس واقعے کو تاریخ کا سب سے بڑا سپلائی چین حملہ قرار دیا ہے۔

موساد پر ایک کتاب کے مصنف یوسی میلمن کے مطابق ان دھماکوں سے تاثر ملتا ہے کہ یہ موساد کا آپریشن تھا۔ کہتے ہیں کہ کسی نے حال ہی میں ان پیجرز میں دھماکہ خیز مواد یا وائرس نصب کیا۔ جو نہ صرف حزب اللہ کے سنیئر کمانڈر بلکہ دیگر ارکان بھی اپنے پاس رکھتے ہیں۔

یوسی میلمن کا مزید کہنا ہے کہ موساد کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ بار بار حزب اللہ تک پہنچ سکتی ہے۔ مگر ان دھماکوں سے اسٹرٹیجک سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ مصر کے سیکورٹی ماہر میجر جنرل محمد نور نے اسے ایک اختراعی سائبر واقعہ قرار دیا اور رائے دی ہے کہ وائرلیس ڈیوائسز کو کبھی بھی محفوظ نہیں سمجھا جاسکتا۔

لبنان کے سیکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے دھماکوں سے چند ماہ پہلے حزب اللہ کیلئے تائیوان کے بنائے گئے 5000 پیجرز (موصلاتی آلات) میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا تھا۔ لبنان کے ایک سینئر سیکیورٹی ذریعے نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ’حزب اللہ نے تائیوان کی کمپنی گولڈ اپولو کے بنائے ہوئے 5000 بیپرز کا آرڈر دیا تھا۔ جس کے حوالے سے کئی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں موسم بہار میں لایا گیا تھا۔ حزب اللہ کے سینکڑوں ارکان کے زیر استعمال پیجرز گزشتہ روز لبنان اور شام میں تقریباً ایک ہی وقت پھٹے۔ جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ بچی سمیت کم از کم دس افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوگئے۔ زخمی ہونے والوں میں لبنان میں ایران کے سفیر بھی شامل ہیں۔ پیجر پھٹنے کے واقعات شام میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔