ضبط کیا گیا کچھوے کا گوشت مال خانے سے چُوری بھی کیا گیا، فائل فوٹو
ضبط کیا گیا کچھوے کا گوشت مال خانے سے چُوری بھی کیا گیا، فائل فوٹو

مچھلی کی آڑ میں دریائی کچھوئوں کی ایکسپورٹ کا انکشاف

عمران خان:
پاکستان سے قیمتی اور نایاب دریائی کچھوئوں کا گوشت مچھلی کے گوشت کے نام پر انتہائی ارزاں ڈیوٹی اور ٹیکس پر بیرون ملک ایکسپورٹ (قانونی طور پر اسمگل) کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ اس کی روک تھام کے ذمے دار ادارے سندھ وائلڈ لائف اور پنجاب وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ میں موجود بعض کالی بھیڑیں اس دھندے کو سہولت کاری فراہم کر تی رہی ہیں۔

مذکورہ دھندے کے نتیجے میں ایک جانب ان کچھوئوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور دوسری جانب حکومت پاکستان کو سالانہ ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان پہنچانے والی مافیا بھاری منافع ڈالروں کی صورت میں کما رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ یہ قیمتی زر مبادلہ دبئی ، سنگا پور، تھائی لینڈ وغیرہ میں کھپایا (پارک) جا رہا ہے ۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس وقت سندھ اور پنجاب میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا اور دیگر دریائوں کے اطراف ایسا نیٹ ورک سرگرم ہوگیا ہے جو کہ دریائی کچھوئوں کا غیر قانونی شکار کرنے کے بعد ان کا گوشت پنجاب اور سندھ کے بعض ایسے ایکسپورٹرز کو سپلائی کر رہا ہے جو اس گوشت کو مچھلی کے گوشت کے نام پر بیرون ملک بر آمد کردیتے ہیں۔ چونکہ اس برآمد میں اصل حقائق چھپائے جاتے ہیں اس لئے یہ اسمگلنگ کے زمرے میں آتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان سے مچھلی کی کئی دریائی اور سمندری اقسام کا گوشت پروسس ہونے کے بعد بیرون ملک ایکسپورٹ کیا جاتا ہے ۔ تاہم اس گوشت کی بیرون ملک قیمت 5 سے 10 ہزار روپے کلو گرام ہوتی ہے اور بعض اوقات اس سے بھی کم قیمت میں یہ گوشت باہر جاتا ہے۔ اس لئے مچھلی کے گوشت کی برآمد پر کسٹمز کے ڈیوٹی اور ٹیکس بھی ان کی قیمت کے حساب سے کم ہوتے ہیں۔

ذرائع کے بقول یہ مافیا مچھلی کے گوشت کے نام پر قیمتی کچھوئوں کا گوشت تھائی لینڈ ، سنگا پور ، ہانگ کانگ اور اس طرح کے دیگر ملکوں میں ایکسپورٹ کررہی ہے جسے وہاں انتہائی مرغوب اور مہنگی غذا کے طور پر کھایا جاتا ہے ۔ اس لئے یہ گوشت ان ممالک میں 50 ہزار روپے فی کلو تک فروخت کیا جاتا ہے ۔ چونکہ پاکستان سے یہ مچھلی کے گوشت کے نام سے جاتا ہے، اس لئے اس کے عوض آنے والے زر مبادلہ کی معمولی رقم ہی پاکستان میں ادائیگی کے طور پر بینکنگ چینل سے منگوائی جاتی ہے اور زر مبادلہ کا زیادہ حصہ دبئی اور انہی ممالک میں وصول کرکے وہیں ’’پارک‘‘ کردیا جاتا ہے۔

ذرائع کے بقول یہ مافیا، ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ کئی برسوں سے کر رہی ہے ۔ جس میں انہیں کچھوئوں کا شکار کرنے والے نیٹ ورک کے ساتھ بعض سرکاری افسران کی سہولت کاری بھی حاصل ہے ۔ یہ اسمگلنگ زیادہ تر ایئرپورٹ سے برآمد ہونے والی گوشت کی کھیپوں کے ذریعے کی جا رہی ہے۔

اس ضمن میں جب مزید تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ ایسے گروپوں کو کچھوئوں کے گوشت کی سپلائی میں اور کوئی نہیں، بلکہ خود وائلڈ لائف یعنی محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ذمے دار ادارے یعنی سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے افسران شامل رہے ہیں۔ مزید تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ان سرکاری سہولت کاروں میں ماتحت ملازمین کے علاوہ ادارے کے کنزرویٹر اور ڈپٹی کنزر ویٹر سے لے کر گیم افسر تک شامل رہے ہیں۔

ذرائع کے بقول کچھ عرصہ قبل ایک ایسے ہی واقعہ میں کچھوئوں کا گوشت چوری ہونے کے واقعہ کی تحقیقات تاحال مکمل نہیں کی جاسکی ۔ سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ایک تحقیقاتی افسر کی جانب سے سندھ وائلڈ لائف کے ایک کنزرویٹر کو بے گناہ اور دیگر عملے کو ملوث قرار دیا گیا ۔ لیکن جب عملے نے فائنل شوکاز کے تحریری جوابات جمع کرائے تو اصل حقائق سے پردہ اٹھا۔ اس کے بعد مذکورہ کنزرویٹر فارسٹ نے پہلی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ازسر نو تحقیقات کرانے کی سفارش کی۔ لیکن مذکورہ حساس معاملے کی تحقیقات دوبارہ شروع نہیں ہوسکی۔

یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا تھا جب کراچی میں قائد اعظم انٹرنیشنل ایئر پورٹ میں تعینات اس وقت کے سندھ وائلڈ لائف کے ایکٹنگ گیم انسپکٹر سردار احمد نے کراچی سے چائنا جانے والے خشک گوشت کے ایک کنسائمنٹ کو مشکوک سمجھتے ہوئے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ یہ کنسائمنٹ 16 ڈبوں پر مشتمل تھا جن میں 1650 کلو خشک گوشت موجود تھا کنسائمنٹ چائنا بھیجنے والے نے جو ڈاکومنٹس کسٹم میں جمع کروائے تھے۔

اس میں مذکورہ خشک گوشت کو مچھلی کا گوشت ظاہر کیا گیا تھا۔ تاہم ایکٹنگ گیم انسپکٹر سرادر احمد کو مذکورہ خشک گوشت پر بعض مشکوک شبہات تھے۔ جس پر انہوں نے اس وقت کے چیف کنزرویٹر غلام رسول چنّا کو آگاہ کیا۔ غلام رسول چنّا نے فوری طور پر سندھ وائلڈ لائف کے تین افسران پر مشتمل ایک ٹیم ایئر پورٹ بھیجی جس نے شک کی بنا پر تحویل میں لئے گئے خشک گوشت کا معائنہ کیا ۔ تاہم سندھ وائلڈ لائف کے افسران اس بات کا تعین نہ کرسکے کہ مذکورہ گوشت کس چیز کا ہے۔

بعد ازاں تحویل میں لئے گئے گوشت کا معائنہ کروایا گیا تاکہ یہ حقیقیت معلوم ہوکہ جو گوشت تحویل میں لیا گیا ہے وہ کس جانور کا ہے۔ تحویل میں لئے گئے گوشت کا کراچی یونیورسٹی سے لیبارٹری ٹیسٹ کروایا گیا۔ جس میں یہ انکشاف ہوا کہ کنسائمنٹ بھیجنے والے نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کچھوئوں کے گوشت کو مچھلی کا گوشت ظاہر کیا گیا ۔ جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے مذکورہ گوشت کو باقاعدہ ضبط کیا ۔ تحویل میں لیکر سندھ وائلڈ لائف کے مال خانے میں منتقل کردیا گیا۔

باقاعدہ قانونی کارروائی کرتے ہوئے کچھوئوں کا گوشت اسمگل کرنے کا مقدمہ درج کیا۔ اس کی رپورٹ کو سابقہ سیکریٹری فارسٹ اینڈ وائلڈ لائف محبوب عالم کی ہدایت پر عدالت میں پیش کردیا گیا۔ جبکہ اور عدالت کے حکم کے مطابق ضبطہ شدہ کچھوئوں کا گوشت مال خانے میں رکھ دیا گیا۔ تاہم بعد ازاں کنزرویٹر حسین بخش بھگت کی سرپرستی میں ان کے عملے نے یہ گوشت مال خانے سے چرا کر اسمگلروں کو دینے کی کوشش کی اور ایک بار پھر ملیر کے علاقے میں یہ سرکاری کار مسروقہ گوشت سمیت پکڑی گئی جس پر تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا۔ تاہم اس پر بعد ازاں تحقیقات کو دبا دیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔