سیاحوں سمیت پارک میں روزگار کرنے والے خائف ہین، فائل فوٹو
سیاحوں سمیت پارک میں روزگار کرنے والے خائف ہین، فائل فوٹو

پی ٹی آئی امن تباہ کرنے کو پھر تیار

نواز طاہر:
پنجاب کے پانچ اضلاع میں دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ کو ہوا میں اڑتے ہوئے پی ٹی آئی ایک بار پھر امن دشمنی پر اتر آئی ہے۔ پنجاب مختلف شہروں میں پولیس اور پی ٹی آئی شرپسندوں میں جھڑپوں پر ہنگامہ آرائی پر اکسانے والے زائد پی ٹی آئی اراکین اسمبلی اور درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے گیا ہے۔ دوسری جانب پانچ اکتوبر کو مینارِ پاکستان پر جلسے کی اجازت تاحال نہ ملنے کے باوجود سوشل میڈیا پر جلسہ اسی مقام پر ہونے کے پیغام ایک مہم کے طور پر جاری ہیں۔ جبکہ مینار پاکستان پر سیر کیلئے آنے والوں ، وہاں کے محنت کشوں اور عام شہریوں نے یہاں جلسوں کی اجات دینے کی مخالفت کردی ہے اور متعلقہ عملے نے پودے اور پھول اجڑنے کے خوف سے نئے پودے لگانا وقتی طور پر روک دیے ہیں۔

واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظرمنگل کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ نچ اضلاع میانوالی، فیصل آباد، بہاولپور، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کرکے اجتماعات پر پابندی لگادی تھی۔ اس ضمن میں محکمہ داخلہ کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ یہ پابندی اضلاع کی انتظامیہ کی سفارش پر لگائی گئی ہے کیونکہ سیکورٹی خطرات کے پیش نظر کوئی بھی عوامی اجتماع دہشت گردوں کیلئے سافٹ ٹارگٹ ہو سکتا ہے۔ اس پابندی کو پی ٹی آئی کی طرف سے مسترد کیا گیا اور مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے قانون پر عملدرآمد کیلئے کارروائی کی گئی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی پانچ اکتوبر کو لاہور میں مینارِ پاکستان کے مقام پر جلسہ کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر مہم چلارہی ہے۔ جبکہ ابھی تک اسے اس جلسے کی اجازت نہیں ملی۔ لیکن پی ٹی آئی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ جلسہ یہیں ہوگا بھلے یہاں بھی دفعہ ایک سو چوالیس لگادی جائے، ہم ایسی پابندیوں کو نہیں مانتے۔ دریں اثنا پنجاب میں مختلف اضلاع میں دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ کو عدالت میں بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ مینارِ پاکستان پر جلسے کی اجازت کے حوالے سے عام شہریوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس عظیم یاد گار سمیت کسی بھی تفریحی مقام کو جلسہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا ترک کردیں۔ اس سے پارک تباہ اور عوام خوار ہوتے ہیں، خاص طور پر محنت کشوں کا روزگار چھن جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق پچھلے پانچ سال کے دوران سیاسی جلسوں کی وجہ سے مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں ایک ہزار سے زائد قد آور پودے تباہ ہوئے۔ ہزاروں گملے ٹوٹے اور ان گملوں کے باہر دس ایکڑ اراضی میں کیاریوں پر لگے پھول بھی مسلے گئے۔ آہنی جنگلوں اور فواروں کو پہنچنے والے نقصان کا بھی ازالہ نہیں کیا گیا اور اس ضمن میں ہر بار ڈپٹی کمشنر لاہور کی بسی کھائی دی جو نہ چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی مجبوری کی بنا پر جلسے کی اجازت دینے پر مجبور ہوئے۔

یاد گار پاکستان میں موجود ایک سرکاری اہلکار نے مینارِ پاکستان کے ایک کارنر میں ٹوٹے ہوئے جنگلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہیں سیاسی جلسوں کی نشانیاں ‘ جو بتاتی ہیں کہ سیاستدان جلسہ کرکے قومی املاک کو نقصان کس طرح پہنچاتے ہیں۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ جب پارک کے جنگلوں سمیت املاک کو نقصان پہنچتا ہے تو ہم ڈپٹی کمشنر کو سمری بنا کر بھیج دیتے ہیں اور پارک کی بحالی کا کام شروع کریتے ہیں۔ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کے اہلکاروں نے بتایا پھولوں کی کیاریوں میں ابھی پھول نہیں لگائے جارہے۔ جبکہ موسم کے مطابق میری گولڈ پھولوں کی پنیری تیار ہے اور یہاں پی ٹی آئی جلسے کی بات ہورہی ہے ، ایسے حالات میں یہ پنیری اورپھول کہاں بچیں گے؟ یہ ہمارے لئے بچوں جیسے ہیں اور ہجوم کے پائوں تلے مسلے جاتے ہیں تو ہمیں دلی تکلیف ہوتی ہے۔

مینار پاکستان مین سائیکل اسٹینڈ اور تفریحی کارپائلٹوں اور ٹھیلے ، چھابڑی لگا کر روز گار کمانے والے محنت کشوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی جلسہ ہونے کی وجہ سے دو سے تین روز کیلئے بے روزگار ہوجانا لازمی ہے۔ اوسطاً ایک ہزار سے تیرہ سو روپے کی یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ان محنت کشوں کا کہنا ہے کہ عدالت کو اپنے حکم کے تحت یہاں جلسے کرنے پر مکمل پابندی لگا دینا چاہئے۔ ایک محنت کش معمر خاتون نے بتایا کہ ’’میں بچوں کی مدد سے تنکوں سے کھلونے بناتی اور یہاں تفریح کیلئے آنے والوں کو فروخت کرتی ہوں۔ لیکن جب جلسہ ہوتا ہے تو مجھے مجبوراً ناغہ کرنا پڑتا ہے‘‘۔ مینار پاکستان پر کام کرنے والے محنت کشوں کے مطابق وہ سبھی یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور جلسے کرنے والوں کو ان کے فاقوں کی پرواہ نہیں ہوتی۔ سائیکل اسٹینڈ پر کام کرنے والے معمر شخص نے بتایا کہ ماضی میں موچی دروازہ اور گول باغ ( ناصر باغ ) جلسہ گاہیں ہوتی تھیں۔ انہیں یا کسی اور کھلی جگہ کو جلسہ گاہ بنا دیا جائے اور اس قومی نشانی ، وقار کی علامت یاد گار پر رحم کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔