دونوں صوبوں کے رہنمائوں کی الگ الگ رائے نے کارکنوں کو بھی تقسیم کردیا، فائل فوٹو
 دونوں صوبوں کے رہنمائوں کی الگ الگ رائے نے کارکنوں کو بھی تقسیم کردیا، فائل فوٹو

احتجاج پر پی ٹی آئی کی پختونخوا اور پنجاب قیادت تقسیم

محمد قاسم :
ڈی چوک پر احتجاج کے حوالے سے پی ٹی آئی 2 دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور، چیئرمین بیرسٹر گوہر اور صوبائی مشیر اطلاعات ڈاکٹر سیف احتجاج کے مخالف ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی پنجاب کے صدر حماد اظہر، سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، شیخ وقاص اکرم کے علاوہ گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید شاہ اور دیگر ڈی چوک احتجاج پر بضد ہیں۔ ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ سے مسترد ہونے کے بعد سیاسی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا۔ جس میں آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی سینئر قیادت نے احتجاجی حکمت عملی کی مخالفت کی ہے۔ چیئرمین بیرسٹر گوہر، مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف اور وزیراعلیٰ خیبرپختون علی امین گنڈاپور نے ڈی چوک پر احتجاج کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ پنجاب کے صدر حماد اظہر، سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، شیخ وقاص اور خالد خورشید سمیت دیگر قیادت ڈی چوک احتجاج پر بضد رہے۔

ذرائع نے بتایا کہ رات گئے سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ نے ڈی چوک پر احتجاج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے پاس فنڈز کی کمی ہے اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر مد میں اب تک 75 کروڑ روپے لگ چکے ہیں۔ اس موقع پر علی امین گنڈاپور نے احتجاج موخر کرنے پر اصرار کیا۔ جس کی چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے حمایت کی۔ تاہم ذرائع کے مطابق سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، خالد خورشید اور پی ٹی آئی پنجاب کے صدر حماد اظہر نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کروا دی جائے تو احتجاج موخر کردیا جائے گا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ پر عمران خان سے ملاقات کیلئے شدید دباؤ بھی ڈالا گیا۔ جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے کور کمیٹی کا اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی میں ایک مرتبہ پھر وزیراعلیٰ خیبرپختون سے امید کی جارہی ہے کہ وہ بڑا قافلہ لے کر اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچیں گے۔ تاہم وزیراعلیٰ سمیت خیبرپختون میں پی ٹی آئی قیادت اس کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس سے ایک طرف کانفرنس کے شرکا کو اچھا پیغام نہیں جائے گا۔ جبکہ پی ٹی آئی کا امیج بھی خراب ہو گا۔

دوسری جانب کارکنوں کو پہلے سے زیادہ مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ وفاقی حکومت نے احتجاج کے اعلان پر سخت ردعمل دیا ہے اور ہر طرف سے اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سمیت خیبرپختون کی قیادت جو پہلے ہی بڑے مشکل حالات میں احتجاج کر چکی ہے۔ اب صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا سوچ رہی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ احتجاج کی کال شنگھائی تنظیم کانفرنس کے انعقاد کے بعد بھی دی جا سکتی ہے۔ جس میں کارکنان بھی کھلے دل کے ساتھ شرکت کر سکیں گے۔ لیکن اگر اس مرحلہ پر احتجاج کی کال دی جائے گی تو مشکل ہے کہ خیبرپختون سے کارکنان باہر نکلیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ احتجاج کا فیصلہ اگلے 24 گھنٹے تک ہو جائے گا۔ قوی امکان ہے کہ اگر احتجاج کا فیصلہ تو وہ کے پی کی قیادت بھرپور شرکت نہیں کرے گی۔ ذرائع کے بقول احتجاج کی کال واپس لے لی گئی تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت خیبرپختون کی قیادت سمجھتی ہے کہ انہیں اور صوبے کے ورکرز کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ اندرون شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے حمایتوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس احتجاج کے حق میں نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی اور موقع پر احتجاج کی کال دی جاتی تو وہ چلے جاتے۔ لیکن اسلام آباد میں ایک بڑی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اور وہ محب وطن ہیں۔ اس کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کیلئے اسلام آباد پر دھاوا نہیں بول سکتے۔ واضح رہے کہ ڈی چوک پر احتجاج کی کال کے بعد سے مختلف سیاسی جماعتوں سمیت گورنر خیبرپختون بھی تحریک انصاف کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ جبکہ عوامی و سماجی حلقے بھی اس کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ احتجاج کی کال اگر موخر کر دی جاتی ہے تو بھی پی ٹی آئی پنجاب اور خیبرپختون کے درمیان تلخیاں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔