عمران خان:
ایم ڈی کیٹ کے امتحانات میں پرچے لیک ہونے کے اسکینڈل پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی میں تحقیقات میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔
ذرائع کے مطابق پرچے لیک کرنے کے لئے طلبا اور طالبات کو شامل کرکے جو واٹس ایپ گروپ بنایا گیا۔ اس کے اہم کرداروں کے نمبرز اور کوائف حاصل کر لئے گئے ہیں۔ اب تک 150مشکوک طلبہ میں سے 100کے لگ بھگ طلبہ کے بیانات قلمبند کئے جاچکے ہیں۔ جبکہ یومیہ بنیادوں پر 10سے 15طلبا کو طلب کرکے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق امید ہے کہ آئندہ ہفتے کے آخر تک تمام طلبا اور طالبات کے بیانات قلمبند کرکے سامنے آئے والے شواہد پر انکوائری کو آگے بڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا۔ طلبہ سے تحقیقات میں سختی کے بجائے تکنیکی بنیادوں پر کام کیا جا رہا ہے جس میں بعض اساتذہ کے ساتھ ہی نفسیاتی ماہرین کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی میں یہ انکوائری اس وقت شروع کی گئی جب گزشتہ دنوں ہونے والے ایم ڈی کیٹ کے امتخانات میں 150 امیدواروں نے 200 میں سے 190 نمبرز حاصل کئے جوکہ ایک حیرت انگیز بات تھی اور اسی کے ساتھ امتحانات میں پرچے لیک ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ جس پر یہ معاملہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سپرد کردیا گیا ۔ اس معاملے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی میں انکوائری نمبر 2279/2024 درج کرکے تحقیقات کا آغاز کیا گیا ۔ اسکینڈل کی تحقیقات ایف آئی اے سائبر کرائم کی افسر انسپکٹر عارفہ سعید ایڈیشنل ڈائریکٹر عامر نواز کی سربراہی میں کر رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق تحقیقات کو جلد از جلد نمٹانے پر کام جاری ہے جس میں200 طلبا اور طالبات کو طلب کرنے کے لئے نوٹس جاری کئے گئے۔ تحقیقات میں اب تک میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) کا پرچہ لیک ہونے کی تحقیقات کے دوران 96 طلبہ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں پیش ہوئے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا تھا گز شتہ روز تک طلب کیے گئے 96 طلبہ ایف آئی اے کے دفتر میں تفتیش کیلئے پیش ہوئے جس دوران تمام طلبہ کے والدین کی موجودگی میں بیانات قلمبند کئیگئے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ دوران تفتیش طلبہ نے پرچہ یا گیس پیپر کے مبینہ طور پر لیک ہونے کی تفصیلات فراہم کی جب کہ کچھ طلبہ نے بتایا کہ واٹس ایپ کے ذریعے ایک روز قبل انہیں ملتاجلتا پرچہ موصول ہوا جب کہ طلبہ کی جانب سے پرچہ بھیجنے والے افراد کے نمبرز بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔ ایف آئی اے نے مزید بتایا کہ اب تک کی تفتیش میں 100 فیصد لیک پرچے کے حوالے سے معلومات نہیں ملیں، چند روز میں تمام طلبہ کے بیانات سامنے آنے کے بعد مزید تفتیش کو آگے بڑھایاجائے گا۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے نے ٹیسٹ دینے والے طلبہ کو بھی تفتیش کیلئے طلب کیا تھا۔ لیکن ایف آئی اے افسران نے بچوں سے تفتیش میں سختی کرنے سے روک دیا ہے۔ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) میں دھوکہ دہی کے الزام میں ایف آئی اے سائبر کرائم کی جانب سے اب تک 200 طلبہ کو نوٹسز جاری کئیجاچکے ہیں۔ دوران تحقیقات طلب کردہ طلبا وطالبات کے سابقہ تعلیمی بورڈ کے رزلٹ کی جانچ پڑتال کی جا رہی۔
ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے میں انتہائی غیر معمولی نمبر کے طلبا و طالبات کو بلوایا گیا جو جمعہ، یکم نومبر کو دوپہر 12 بجے گلستان جوہر بلاک 14 میں سائبر کرائم ہیڈ آفس میں پیش ہوئے۔ ابتدائی طور پر روزانہ 10 سے 15 طلبا و طالبات سے سائبرکرائم تحقیقات کرے گی، بعد ازاں مرحلہ وار تحقیقاتی عمل کا دائرہ بڑھانے کے لئے طلبہ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ سائبر کرائم ذرائع کے مطابق تمام طلبہ کا سی آر پی سی 160 کے تحت بیان ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ جبکہ ان کی ذہانت کو جانچنے کے لیے ماہرین تعلیم کے تعاون و رہنمائی سے فرضی امتحان بھی لیا جاسکتا ہے۔ مشتبہ رزلٹ کے حامل طلبا و طالبات کا موزانہ سابقہ تعلیمی بورڈ کے رزلٹ سے کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے سائبرکرائم سرکل کی جانب سے جاری لیٹر کے مطابق نوٹس کے جواب میں تحقیقاتی عمل کی روگردانی اور اس سے راہ فرار اختیار کرنے والے طلبا و طالبات کو ملزم قرار دیا جا سکتا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ تاہم اب اعلیٰ افسران نے ایف آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ جو بچے بیان دینے آئیں، ان کا بیان لے لیں اور زبردستی نہ کریں۔ ساتھ ہی تفتیشی ٹیم کو حکم دیا گیا کہ بچوں کے بجائے دیگر امور پر تفتیش کی جائے اور متعلقہ افسران کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں۔
ذرائع کے بقول طلبہ سے ملنے والے موبائل نمبروں سے پرچے لیک کرنے والے گروپ کے افراد کے کوائف لئے جا رہے ہیں اور ان کی لوکیشن کے ساتھ ہی نادرا کی معلومات کی بنیاد پر ان کے بینک اکائونٹس کا ڈیٹا بھی چیک کیا جا رہا ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان دنوں میں ان کے ساتھ کن کن افراد کی جانب سے رقوم کی منتقلی کی گئی اور انہوں نے کن لوگوں کو رقوم ترسیل کی ہیں۔ تاکہ اس پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کرکے سامنے لایا جاسکے ۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اس معاملے پر باقاعدہ مقدمہ درج کیا جائے گا ۔ تاہم مقدمہ کے اندراج سے پہلے بھی تفتیش کے لئے مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جاسکتا ہے ۔