عمران خان :
کسٹمز افسران کے پرائیویٹ ملازم نیٹ ورک (لپو سسٹم) کے خلاف ایف بی آر میں کئی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ گزشتہ طویل عرصہ سے یہ پرائیویٹ ملازمین جنہیں کسٹمز میں عرف عام میں ’’لپو‘‘ کہا جاتا ہے، افسران کے فرنٹ مین کے طور پر ٹیکس چوری میں ملوث کمپنیوں اور ماتحت افسران کے درمیان رابطہ کار کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
کسٹمز کے تمام ہی دفاتر میں لپوئوں کو کسٹمز افسران کے باعتماد ’’بندوں ‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے اور ہردفتر اور افسر کا اپنا خاص لپو ہوتا ہے جس کی ساری زندگی انہی کے ساتھ گزر جاتی ہے ۔ جبکہ کئی دفاتر میں یہ لپو سرکاری افسروں کی سیٹوں اور کمپیوٹرز کو استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ سرکاری کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں اس لپوئوں کے خلاف کارروائی کے لئے چیف کلکٹر اپریزمنٹ کراچی کی جانب سے ایک مراسلہ تمام کلکٹریٹس کو جاری کیا گیا ہے کہ فوری طور پر ان پرائیویٹ ملازمین کو دفاتر اور سرکاری امور سے ہٹا دیا جائے بصورت دیگر متعلقہ کسٹمز افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔
موصول ہونے والے مراسلے سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ دنوں چیف کلکٹر کسٹمز اپریزمنٹ کراچی کی جانب سے ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ پورٹ قاسم ،ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ اپریزمنٹ ایسٹ ،ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ اپریزمنٹ ویسٹ اور ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ اپریزمنٹ ایس اے پی ٹی کو احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ فوری طور پر تمام پرائیویٹ افراد کو ان مقامات سے ہٹایا جائے اور ان کو سرکاری امور میں شامل نہ کیا جائے۔ذرائع کے بقول یہ احکامات اس وقت جاری کئے گئے ہیں جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کی منظوری سے چیئرمین ایف بی آر ادارے کی کارکردگی کو موثر بنانے کے لئے متعدد اصلاحات پر عمل در آمد کروا رہے ہیں ۔
ذرائع کے بقول صرف حالیہ عرصہ میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ کسٹمز کے افسران جہاں جہاں تعینات ہوتے ہیں وہ اپنے پرائیویٹ لپو ساتھ لے کر جاتے ہیں اور انہی سے اپنے خاص کام کرواتے ہیں ۔پیسوں کے لین دین کے علاوہ انہی کے ذریعے خاص فائلیں حرکت میں لائی جاتی ہیں تاکہ سرکاری افسران اور ریکارڈ میں یہ ڈیٹا شامل نہ ہوسکے اور کوئی انکوائری ہونے کی صورت مین پرائیویٹ افراد ہی نرغے میں آئیں جنہں بعد ازاں وقت گزرنے کے ساتھ کیس ہلکا کر کے بچا لیا جاتا ہے ۔
کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک واقعہ میں محکمہ کسٹمز میں کام کرنے والے لپوون نے درآمد کنندہ کی جانب سے ادا کئے گئے ڈیوٹی وٹیکسز والے کنسائمنٹ کو فراڈ کے ذریعے نیلام کروایا ۔جس کے بعد کسٹمز حکام نے لپو کر گرفتار کر کے سامان بر آمدکیا۔ ذرائع کے مطابق درآمد کنندہ عابد جاپان والا کی جانب سے درآمد کیا جانے والا اسکریپ کا ایک کنسائمنٹ پاک شاہین کنٹیز ٹرمینل پر موجود تھا اور جس کی گڈز ڈیکلریشن ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ اپریزمنٹ ایسٹ میں قائل کی گئی تھی ۔جسے محکمہ کسٹمز میں کام کرنے والے ایک پرائیویٹ ملازم ( لپو ) نے فراڈ کے ذریعے اسکریپ کے کنسائمنٹ کی نیلامی کروادی گئی تھی تاہم درآمد کنندہ کی جانب سے ڈیوٹی و ٹیکسز کی ادائیگی کے بعد کنسائمنٹ کے بارے میں معلومات کی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس کا کنسائمنٹ نیلام کر دیا گیا ہے جبکہ محکمہ کسٹمز کے قوانین کے مطابق اگر کسی کنسائمنٹ کا دویدار نہ ہو تو اور ایک مخصوص وقت تک ٹرمینل پر پڑا رہے تو کسٹمز حکام اس کو نیلام کر سکتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ درآمد کنندہ نے کنسائمنٹ کی نیلامی کی شکایت کلکٹر اپریزمنٹ ایسٹ سے کی جس پر محمکہ کسٹمز کی مشینری حرکت میں آگئی۔بعد ازاں مقدمہ درج کردیا گیا جس میں عدیل احمد، میر رضوان، اور محمد ذکی کے ساتھ ساتھ پاک شاہین ٹرمینل کے اسٹاف و انتظامیہ کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔ تاہم محکمہ کسٹمز نے عدالت میں پیش کئے جانے والے چالان میں ٹرمینل اسٹاف و انتظامیہ کو واقعہ کا ذمہ دار نہیں ٹھیرایا۔ ذرائع کے مطابق مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ذکی نام کا ایک شخص جو پرائیویٹ ملازم ( لپو ) کی حیثیت سے محکمہ کسٹمز کے اسٹاف کے ساتھ گذشتہ چھ سال سے کام کر رہا تھا جس نے جعلی دستاویزات پر یہ سامان نیلام کروا دیا تھا۔
واضح رہے کہ محکمہ کسٹمز میں بیشتر ایسے پرائیویٹ ملازم ( لپو ) موجود ہیں جو کسی نہ کسی ریٹائرز کسٹمز آفیسر کے بیٹے ایک رشتہ دار ہیں تاہم یہ پرائیویٹ ملازمین جو کسی نہ کسی ریٹائرز کسٹمز آفیسر کے بیٹے یا رشتہ دار ہیں محکمہ کسٹمز میں موجود حاضر سروس کسٹمز افسران ( اپریزنگ آفیسر اور پرنسپل اپریزز ) اپنے پاس ملازم رکھ لیتے ہیں۔ جو ان افسران کے تمام تر کام کرتا ہے جس میں احساس نوعیت کی معلومات بھی شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ پرائیویٹ افراد محکمہ کسٹمز کے ملازمین کی جگہ کام کر تے رہے ہیں۔اور حساس نوعیت کی معلومات پر ان کو آسانی تک رسائی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس واقعہ میں پاک شاہین ٹرمینل کو بری الذمہ قرار دیدیا ہے جبکہ ان کسٹمز افسران کے خلاف کاروائی کا عند یہ دیا ہے جنہوں نے پرائیویٹ ملازم ( لپو ) کو کسٹمز کی احساس معلومات اور ریکارڈ تک رسائی دی ہے۔
اسی سلسلے میں کچھ عرصہ قبل مسلسل اطلاعات ملنے پر 2021ء میں بھی ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کی جانب سے احکامات جاری کئے گئے تھے ۔اس ضمن میں ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سے ملک بھر کے کلکٹریٹس اور ڈائریکٹوریٹس کو ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا تھا کہ کسٹم افسران اور اہلکاروں کے لئے ایک یونیفارم کے استعمال کو یقینی بنایا جائے حکم نامے پر عمل در آ مد نہ کرنے والے افسران اور اہلکاروں کے خلاف سول سرونٹ رولز کی خلاف ورزی کے تحت محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اس وقت جاری کردہ S.R.0.7.22 (1)12021کے مطابق کسٹم کے ایک گریڈ سے لے کر 21گریڈ تک کے تمام افسران اور اہلکار اپنے لئے مختص یونیفارم یکم جولائی سے لازمی پہننے کے پابند ہونگے ۔جس کے لئے ان افسران اور اہلکاروں کو خصوصی الائونس بھی شامل کرکے دیا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول گزشتہ عرصہ میں ایسی کئی اطلاعات اور شکایات ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے حکام تک پہنچی ہیں کہ کسٹم کے افسران اور اہلکار سرکاری گوداموں میں جمع ہونے والا اسمگل شدہ مسروقہ سامان میں سے قیمتی سامان چوری کروانے میں سہولت کاری فراہم کر تے رہے جن میں کئی لپو یعنی پرائیویٹ افراد سرکاری افسران کے فرنٹ مینوں کے طور پر شامل رہتے تھے ۔بعد ازاں اس کے عوض سامان چوری کرنے والوں سے رشوت وصول کر لی جاتی رہی۔ ایسے کئی واقعات سامنے آنے پر مقدمات درج کرکے انکوائریاں بھی کی گئیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ کئی واقعات میں چھاپوں کے دوران ہی پکڑے گئے مسروقہ سامان کو یا تو رشوت لے کر چھوڑ دیا گیا یا پھر اس میں سے کچھ حصہ علیحدہ کرلیا گیا ایسے چھاپوں میں اکثر کسٹم کی ٹیمیں سادہ لباس میں ہی جاتی ہیں جبکہ سب سے بڑی مافیا پرائیویٹ لپوئوں کی ہے ، یونیفارم لازمی پہننے کے اقدام سے محکمہ کسٹم کے دفاتر اور ٹرمینل پر پرائیویٹ افراد کی شناخت کی جاسکے گی حالیہ عرصہ میں ایسے واقعات کراچی ،حیدر آباداور کوئٹہ میں سامنے آئے جن میں انٹیلی جنس اور پریونٹو کے افسران اور اہلکار ملوث پائے گئے۔