اقبال اعوان :
منگھو پیر درگاہ پر زائرین کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے یہاں موجود مگرمچھ بھوکا رہنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری بسیں یا پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث مہنگائی کے مارے شہری بھاری کرائے ادا کر کے رکشہ، ٹیکسی میں نہیں آسکتے۔ قریبی گوٹھوں اور آبادی کے لوگ ہی مزار پر آتے ہیں۔
ایک جانب زائرین کی آمد کم ہونے پر مگرمچھوں کو زائرین کی جانب سے کھانے کی اشیا گوشت، حلوہ دیگر سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ وہیں دکاندار، چپل جمع کرنے والے، ہوٹل والے اور گداگر بھی پریشان ہیں۔ محکمہ اوقاف کی جانب سے مگرمچھوں کو سرکاری طور پر گوشت ڈالنے کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا۔ جبکہ سرکاری طور پر رکھی گئیں چندے کی پیٹیاں خالی رہتی ہیں۔ مگرمچھوں کی تعداد انتظامیہ کے بقول 3 سے ساڑھے تین سو ہو گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر دیکھ دیکھ کر شہریوں بالخصوص بچوں کا شوق درگاہ کے مگرمچھوں سے انتہائی کم ہو گیا ہے۔ جبکہ گرم چشمے اکثریتی ختم ہونے پر بھی زائرین کی کمی آئی ہے۔ واضح رہے کہ ضلع ویسٹ میں شہر سے خاصی دور واقع درگاہ سخی سلطان المعروف منگھو پیر بابا پر چند سال سے زائرین کی تعداد 10/15 فیصد رہ گئی ہے۔ ورنہ عام دنوں میں 5/7 ہزار افراد جن میں خواتین بچوں کی بڑی تعداد ہوتی تھی آتے تھے۔ اس دوران جمعرات اور اتوار کو تعداد دگنی ہو جاتی تھی۔ شہری کوسٹر اور دیگر نجی گاڑیاں بک کرا کے آتے تھے۔ بعض لوگ مگرمچھوں کو دیکھنے، گرم چشموں پر نہانے آتے تھے۔
عرصہ دراز سے سلسلہ چل رہا تھا۔ تاہم شہر میں چار پانچ سال قبل جب جرائم کی شرح بڑھی اور لوٹ مار میں اضافہ ہوا تو درگاہ پر آنے والے زیادہ لٹنے لگے کہ ٹوٹی سڑکیں بھی جرائم پیشہ کو فائدہ دینے لگیں۔ بعدازاں پولیس نے کچھ کنٹرول کیا۔ جبکہ سخی حسن نارتھ ناظم آباد سے نیا پل بھی بن گیا اور دیگر راستوں بنارس چوک، کٹی پہاڑی والے راستے بن گئے۔ مزار پر محکمہ اوقات دکانیں کرائے پر دیتا ہے۔ چپل جمع کرانے والے، چوڑیاں، کڑے، تبرکات کی اشیا، پھول، چادر والے، ہوٹل، پارکنگ والے سمیت دیگر دو سو سے زائد دکانیں موجود ہیں جن کا کاروبار زائرین سے چلتا ہے۔ اس طرح محکمہ اوقاف نے 10 سے زائد چندے کی پیٹیاں رکھی ہیں اور ہر ماہ چندہ نکال لیا جاتا ہے۔
درگاہ کے ذمہ دار کا کہنا ہے کہ پہلے درجن سے زائد گرم چشمے تھے۔ جو پانی مافیا کی بڑھتی سرگرمیوں بڑے بورنگ کے پائپ لگا کر پانی ادھر ادھر سپلائی کیا جارہا ہے اور اب درگاہ کے عین نیچے ایک گرم چشمہ بچا ہے جہاں پانی ہے۔ درگاہ کی پہاڑی سے آتا ہے اسی طرح مگرمچھوں کے تالاب کی عرصہ دراز سے صفائی نہیں ہوئی۔ جھاڑیاں اگ گئی ہیں۔ عرصہ دراز سے تالاب کے اطراف کی حفاظتی لوہے کے جنگلے والی دیوار بوسیدہ ہو چکی ہے۔ اب زائرین ادھر سے کھڑے ہو کر مگرمچھوں کو دیکھتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ کوئی دیوار گرنے سے حادثہ ہو اور جانی نقصان ہو۔ یہاں پر مگرمچھوں کی افزائش کا سلسلہ جاری ہے۔
بڑا مگرمچھ 132 سال کا ہو چکا ہے اب 8 ماہ کے بچے تک موجود ہیں۔ حیرت ہے کہ زائرین کی جانب سے کھانا، گوشت نہیں دیا جاتا۔ سرکاری گوشت نہیں آتا، جبکہ مخیر حضرات کی جانب سے کبھی کبھار گوشت ملتا ہے۔ ورنہ مگرمچھ فاقے کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ میئر کراچی، محکمہ اوقاف کے افسران اب ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں اور دورے کر کے معلومات کررہے ہیں۔
پھول والے انور کا کہنا ہے کہ چند سال قبل اچھی خاصی دیہاڑی لگتی تھی اب شام کو پھول کے بمشکل پیسے ملتے ہیں۔ یہاں پر درجنوں گداگر تھے۔ زیادہ تر چلے گئے کہ یہاں پر زائرین نہیں آتے ہیں اصل مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے پبلک بھی 60 نمبر روٹ والی چلتی تھی جو بند ہو گی اب ایک دو کوچیں چلتی ہیں۔ شام کے بعد وہ بھی نہیں آتی ہیں۔ اب رکشہ، ٹیکسی، نجی گاڑیوں کے کرائے زیادہ ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ درگاہ پر مزار انتظامیہ کے لوگ ہی نظر آتے ہیں۔