اقبال اعوان
کراچی میں مہنگائی کے مارے شہریوں میں کتے بلیاں پالنے کا شوق ٹھنڈا پڑنے لگا۔ مہنگی دوائیوں، فیڈز کے علاوہ دیگر اخراجات اٹھانا بس سے باہر ہوچکا۔ برسوں سے پال کر فروخت کرنے والے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ اتوار بازار اور صدر سمیت شہر میں واقع جانوروں کی مارکیٹوں میں پالتو کتے، بلیاں فروخت کرنے والے زیادہ آرہے ہیں جو کم دام میں فروخت کرکے شوق کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ مچھلیوں، پرندوں کے بعد کتے، بلیاں پالنے کا شوق شہریوں پر بوجھ بنتا جارہا ہے۔
کراچی میں پوش علاقوں کا معاملہ اور ہے اس طبقے والے غیر ملکی نسل کے کتے رکھوالی، لڑانے، مختلف شعبوں اسحلہ، بارود، منشیات کے سونگھنے والے، کھوجی کتوں سمیت دیگر کام کرنے والے کتوں کی بریڈنگ کرا کے بڑے پیمانے پر فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ غیر ملکی کتے جو فیملی خواتین بچوں کے ساتھ زیادہ مانوس ہوتے ہیں رکھتے ہیں۔ جبکہ چائنا، رشین سمیت دیگر ملکوں کی بلیاں پالتے ہیں۔ جبکہ کراچی میں جرمن، شیفرڈ، لیپرڈ، ریڈرور، روٹ وہیلر، پوڈل، پگ سمیت دیگر کتے پالے جاتے ہیں اور آج کل پگ ڈاک (Pug) ڈاگ کا چند دن کا بچہ بھی 50 ہزار میں بمشکل ملتا ہے۔
آج کل آن لائن کاروبار عروج پر ہے اس طرح بلیوں میں Persian، Slamese، Maine Coon Salunese، Regdooll، Bengal،Chaomense سمیت مختلف رنگوں، نسل کی بلیاں ہیں جو سفید، برائون، پیلی، سرمئی، ایک دو رنگوں پر مشتمل بلیاں شامل ہیں۔ شہر میں آوارہ بلیوں اور کتوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ لوگ بلیوں اور کتوں سے اکتا چکے ہیں کہ مہنگائی کے دور میں اپنا خاندان نہیں پل رہا ہے۔ اگر صدقہ دینا ہے یا نیکی ثواب سمجھ کر کرنی ہے تو آوارہ کتوں، گھروں، پر آنے والی بلیوں کو دے دو۔ کراچی میں متوسط طبقہ، بلیاں پالتا ہے اور پال کر فروخت کا کام بھی کرتا ہے۔ اب بجٹ میں جانوروں کی فیڈز، دوائیاں بار بار مہنگی کردی گئی ہیں جو اہم ضرورت ہوتی ہے۔
صدر ایمپریس مارکیٹ میں دو بلیاں فروخت کرنے والے ناظم آباد کے رہائشی شعیب اللہ نے بتایا کہ اس نے بلیاں دو سال قبل خریدی تھیں اس کی بیٹی کو سفید رنگ اور نیلی آنکھوں والی بلیاں پسند ہیں۔ اس نے چند روز قبل بیٹی کی شادی کی تو آفر کی کہ جہیز میں دو دوں، تاہم شوہر اور سسرال والوں نے منع کر دیا کہ گھر میں جانور پالنے کی گنجائش نہیں ہے۔ آپس کے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں۔ جانوروں کو کون دیکھے گا۔ اب میاں بیوی ان بلیوں کو کس طرح پالتے، لہٰذا فروخت کررہا ہے۔
اسی طرح بعض لوگ شوقیہ پالنے والے کتے فروخت کررہے تھے کہ بجلی، گیس کے بلوں، بے روزگاری، کم آمدنی، مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ شاہ فیصل کالونی کی خاتون شاکرہ صدیقی کا کہنا تھا کہ اس نے پرشین بلی پالی تھی۔ تاہم بیوہ ہونے پر گھر کا خرچہ نہیں چل رہا ہے۔ اس نے 20 ہزار میں خریدی تھی اب 10/15 ہزار میں فروخت کررہی ہیں کہ شوق اب نہیں پال سکتیں۔ بعض افراد پریشان حال افراد سے جانور کتے، بلیاں، بندر، سستے داموں خرید کر لے جارہے تھے کہ ایک دو روز میں صدر یا دیگر پرندوں، جانوروں کی مارکیٹوں میں اچھی قیمت میں فروخت کر دیں گے۔
لانڈھی کے رہائشی اکبر کا کہنا تھا کہ وہ مختلف اقسام کے لڑاکا کتے پالتا ہے اور فروخت کرتا ہے کہ آج کل کتوں کی لڑائی کو جوئے کی وجہ سے روکا جاتا ہے اس لیے یہ کاروبار اب مہنگا پڑ رہا ہے کہ خوراک، دوائیوں کے اخراجات بہت آرہے ہیں۔ اس لیے یہ کتے فروخت کر کے دوسرا روزگار کرے گا۔