الزامات بے بنیاد ہیں، ترجمان صوبائی وزیر داخلہ فائل فوٹو
 الزامات بے بنیاد ہیں، ترجمان صوبائی وزیر داخلہ فائل فوٹو

محکمہ داخلہ سندھ میں اسلحہ لائسنس کمائی کا دھندا بن گیا

کاشف ہاشمی:
محکمہ داخلہ سندھ کے آرمز لائسنس برانچ میں بھاری رشوت وصولی عروج پر پہنچ گئی۔ صوبائی محکمہ داخلہ کے افسران اور ان کے ایجنٹوں نے اسلحہ لائسنس کی رشوت فکس کر رکھی ہے۔ 80 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک لائسنس بناکر شہریوں کو دیا جارہا ہے۔ جو شہری بھاری رشوت ادا کر دیتے ہیں۔ ان کا اسلحہ لائسنس بغیر کسی اعتراض کے جلد بنوا دیا جاتا ہے۔ جبکہ رشوت نہ دینے والوں کو مختلف بہانوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دفتر میں موجود کلرک اور ایجنٹ شہریوں سے بھاری وشوت وصول کر رہا ہے۔ جبکہ عملہ رشوت دینے والے افراد کو آن لائن بھی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ دفتر میں موجود عابد رضا نامی شخص خود کو ایس او آرمز کا پی ایس ظاہر کرکے بھاری رشوت وصول کررہا ہے۔ عابد رضا کا کہنا ہے کہ شہر بھر میں لائسنس کے ریٹ فکس کردیئے گئے ہیں۔

آل سندھ کے لائسنس کیلئے 80 ہزار روپے اور آل پاکستان اسلحہ لائسنس کیلئے ایک لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد لائسنس بن سکے گا۔ عابد رضا نامی شخص نے موبائل فون پر بھی رشوت دینے والے شہریوں کو لائسنس بنوانے کی سہولیات فراہم کرنا شروع کردی ہے۔ عابد رضا سب سے پہلے لائسنس بنوانے والے شہری سے اس کا شناختی کارڈ منگواتا ہے۔ تاکہ اس کا کرمنل ریکارڈ چیک کیا جاسکے۔

کرمنل ریکارڈ چیک کرنے کے بعد بینک اکائونٹ اور آن لائن ایپلیکیشن اکائونٹ کا نمبر شیئر کرتا ہے اور 40 ہزار روپے ایڈوانس رقم مانگتا ہے۔ عابد رضا کا کہنا ہے کہ ایڈوانس وصولی کے بعد لائسنس اجرا کے کوٹے میں ایڈوانس رقم دینے والے کا نام شامل کرے گا۔ اس کے بعد اسے بائیو میٹرک کیلئے دفتر بلالیا جائے گا۔ لائسنس بن جانے کے بعد باقی 40 ہزار روپے لائسنس وصول کرنے کے وقت ادا کرنے ہوں گے۔

نمائندہ امت نے ایک عام شہری بن کر عابد رضا سے موبائل فون پر رابطہ کیا اور اس کی گفتگو ریکارڈ کرلی۔ جو ’’امت‘‘ کے پاس محفوظ ہے۔ جس میں عابد رضا، شہری سے کہتا ہے کہ شہر بھر میں جتنے بھی ایجنٹ گھوم رہے ہیں۔ ان کیلئے ریٹس مختص کر دیئے گئے ہیں۔ اسلحہ لائسنس بنانے کے عوض وصول کی جانے والی رقم ہوم منسٹر، ان کے پی ایس او، ترجمان اور دیگرافسران تک پہنچائی جاتی ہے۔ شہر بھر میں اگر کوئی اس ریٹ سے کم میں کام کرے گا تو اس کا لائسنس نہیں بن سکتا۔ دوسری جانب شہر میں جاری بدامنی، اسٹریٹ کرائمز، لوٹ مار کی بدولت کراچی میں لائسنس بنوانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم بھاری رشوت نے اسلحہ لائسنس کا حصول مشکل ترین بنا دیا ہے۔ جس کے باعث شہری مجبوراً ایجنٹ کو بھاری رشوت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ محکمہ داخلہ سندھ میں جاری کرپشن کے خلاف محکمہ انسداد کرپشن، وزیر داخلہ کی خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے۔ ذرائع نے بتایاکہ اسلحہ لائسنس سندھ کی فیس 5 ہزار اور آل پاکستان اسلحہ لائسنس کی فیس 7 ہزار500 روپے ہے۔ ذرائع کے مطابق ہوم منسٹر آفس میں ہوم منسٹر کا پی ایس او ایس پی احمد فیصل چوہدری کو اسلحہ لائسنس بنوانے والے خواہشمند افرادکی لسٹ فراہم کی جاتی ہے۔ جس کے بعد وہ اپروول دیتے ہیں۔ ان کی اپروول کے بغیر اسلحہ لائسنس شہری کو فراہم نہیں کیا جاتا۔ ذرائع نے بتایا کہ اسلحہ لائسنس کی فراہمی ہوم منسٹر، ہوم سیکریٹری، چیف سیکریٹری، ایم پی اے، ایم این اے، ڈی سی اور اعلی سطح کے افسران کے کوٹے پر کی جاتی ہے۔

اسلحہ لائسنس برانچ کا عملہ ہوم منسٹر کے پی ایس او ایس پی احمد فیصل چوہدری اور ان کے ترجمان کی ایما پر رشوت وصول کی جارہی ہے۔ جس کا وہ باقاعدہ اسلحہ لائسنس برانچ کے عملے اور ایجنٹوں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں اسلحے کی 378 سے زائد دکانیں قائم ہیں۔ اسلحہ فروخت کرنے والے دکاندار بھی رشوت دے کر اسلحہ کا لائسنس بنواتے ہیں۔ اسلحہ لائسنس برانچ کے افسران نے آرمز ڈیلر لائسنس کا ریٹ 50 لاکھ سے 60 لاکھ روپے رکھا ہوا ہے۔ احمد فیصل چوہدری کے پاس دو ڈیلر لائسنس کی اپروول رکھی ہوئی ہے۔ جس کو فروخت کرنے کیلئے مارکیٹ میں 50 سے 60 لاکھ کی بولی لگائی ہوئی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ بہت تیزی کے ساتھ اسلحہ لائسنس برانچ سے شہریوں کو اسلحہ لائسنس بناکر دیا جارہا ہے۔ جس کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اور نہ ہی کوئی ایس او پیز بنائی گئی ہیں۔ بھاری رشوت کے عوض شہریوں کے ساتھ ساتھ جرائم میں ملوث افراد کو بھی اسلحہ لائسنس فراہم کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اسلحہ لائسنس برانچ کا ایک سابق ملازم فیصل موٹا تمام ایجنٹوں سے کام لے کر سیکشن آفیسر اور آفس سپرنٹنڈنٹ کو دیتا ہے۔ جبکہ ہوم سیکریٹری کا پی ایس او محسن بھی انہی دھندوں میں مصروف ہے۔

اس حوالے سے جب ہوم منسٹر کے ترجمان سہیل جوکھیو سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے موقف میں بتایا کہ ’’ہوم منسٹر، ان کے پی ایس او اور مجھ پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس کی اتھارٹی ہوم سیکریٹری ہے۔ ان کے پاس جو سمری آتی ہے۔ وہ سمری ہوم سیکریٹری ہوم منسٹر کو ارسال کرتے ہیں۔ ہوم منسٹر سمری فائنل کرکے دوبارہ ہوم سیکریٹری کو بھجوادیتے ہیں‘‘۔