عمران خان :
گزشتہ 9 مہینوں سے ایف آئی اے کے تحت ملک بھر میں زرمبادلہ کی غیر قانونی ترسیل اور کرنسی ایکسچینج کا غیر قانونی دھندا کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ تاہم ایک طرف اب اس آپریشن میں کارروائیاں کم ہو کر ایک ہفتہ یا دس دن میں ایک کارروائی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ جبکہ ان کارروائیوں میں گرفتار ہونے والے سینکڑوں ملزمان کے ہزاروں کسٹمرز کو تحقیقات میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔
ایف آئی اے کے افسران کی اس روایتی تفتیشی پالیسی اور کیس چلانے کے اندازکے نتیجے میں ملزمان سے امریکی ڈالرز سمیت دیگر غیر ملکی کرنسی ذخیرہ کرنے والے اور غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوانے والے ہزاروں تاجر، سرمایہ کار، سرکاری افسران اور سیاستدانوں کے فرنٹ مین کارروائیوں سے بچ گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ 10 برس میں ایف آئی اے کے ملک بھر کے سرکلز میں فیرا (فارن ایکسچینج ریگولیٹری ایکٹ) کے تحت ہزاروں کیسوں کی تفتیش محدود کیے جانے سے ملک کو حوالہ ہنڈی کے ذریعے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی مافیا اب بھی سرگرم ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق زر مبادلہ کی غیر قانونی خرید و فروخت اور ترسیل میں ملوث عناصر کیخلاف موثر کارروائیوں کیلئے وفاقی حکومت نے گزشتہ 75 برس سے نافذ پرانے فارن ایکسچینج ریگولیٹری ایکٹ اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی متعلقہ دفعات میں دو برس قبل اہم تبدیلیاں کرکے ایف آئی اے کے شیڈول پر دی تھیں۔ تاکہ ان میں سزائوں اور جرمانے میں اضافے کے ساتھ جرائم کے نئے طریقہ واردات کا احاطہ کیا جاسکے۔
ساتھ ہی ایف آئی اے کو کئی مراحل میں اسٹیٹ بینک اور عدالت کی پیشگی اجازت سے مشروط کارروائی میں سہولت فراہم کی جاسکے۔ تاہم اس کے باجود ایف آئی اے افسران نے ان کیسوں میں روایتی انداز تفتیش جاری رکھا ہوا ہے۔ جس میں کارروائی صرف حوالہ ہنڈی میں ملوث ایجنٹوں تک ہی محدود رکھی جاتی ہے۔ ان ایجنٹوں سے ملنے والے ایسے ہزاروں شہریوں کا وہ اہم ریکارڈ جو کئی برسوں سے ان ایجنٹوں کے ذریعے قیمتی زر مبادلہ کا حوالہ کروا کے ملک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ، اپنے ذرائع آمدنی اور اثاثے چھپارہے ہیں اور منی لانڈرنگ کے ساتھ ٹیکس چوری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس پر کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا جاتا۔ بلکہ ایسے ہزاروں شہریوں کو صرف تحقیقات میں پوچھ گچھ کے بہانے طلب کرکے جوڑ توڑ کرنے کے بعد اسے اپنی اضافی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ اس عمل میں سرکل انچارجز اور زونل ڈائریکٹوریٹس کے افسران آن بورڈ ہوتے ہیں۔
ذرائع کے بقول گزشتہ 15 برس میں ہر حکومت کے دور میں ملک سے قیمتی زر مبادلہ کی غیر قانونی ترسیل کو روکنے اور ڈالر کی قدر کو کم کرنے کیلئے ایف آئی اے کو حوالہ ہنڈی میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈائون کی ہدایات جاری کی جاتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے کے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی کے علاوہ ملک بھر کے ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل، کمرشل بینکنگ سرکل اورکارپوریٹ کرائم سرکلز میں حوالہ ہنڈی میں ملوث ایجنٹوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج کیے جاچکے۔ ان مقدمات میں گرفتار ایجنٹوں، ایکسچینج کمپنیوں کے ملازمین اور ان کے دفاتر سے کروڑوں روپے مالیت کی غیر ملکی کرنسی اور حوالہ ہنڈی کے ثبوت بھی ضبط کیے گئے۔ تاہم اس کے بعد کارروائی میں تفتیش کو صرف ان ایجنٹوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔
ان کیسز میں ایجنٹوں سے کروڑوں روپے کا حوالہ کروانے والے شہریوں جن میں تاجر، سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کے علاوہ نجی ایکسچینج کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹرز بھی شامل تفتیش ہوسکتے ہیں، اس بڑے حصے کو جان بوجھ کر دبا دیا جاتا ہے۔ ایسے درجنوں کیسز میں حوالہ ہنڈی ایجنٹوں نے انکشاف کیا کہ ان کے ذریعے ملک کے معروف تاجر، سرمایہ کار، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے فرنٹ مین لاکھوں ڈالرز کی غیر قانونی ترسیل بیرون ملک کرواتے رہے۔ تاہم ان شخصیات کے حوالے سے تفتیش آگے نہ بڑھنے پر کبھی ایف آئی اے کی تفتیشی فائلوں میں ان کے نام اور کوائف نہیں مرتب ہوسکے اور نہ ہی ان کا کرمنل ریکارڈ بن پایا۔ جبکہ ملک کے ایسے دشمن آج بھی معزز شہری بن کر گھومتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی کارروائیوں سے وفاقی حکومت جو اصل مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ ان کیسز پر مکمل اور شفاف تحقیقات سے ہی پورا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اصل چیز قوانین کو نافذ کرکے حکومت کی رٹ کو بحال کرنا ہے۔ تاکہ شہری حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے سے گریز کریں اور اندرون و بیرون ملک بینکنگ چینل سے ہی اپنی رقوم کی ترسیل کریں۔ تاہم جب ایف آئی اے کی جانب سے تفتیش کو صرف گرفتار ایجنٹوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے تو اس سے گزشتہ کئی دہائیوں سے زر مبادلہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھجوانے والے شہریوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ اسی ایجنٹ کے باہر آنے کے بعد اس سے دوبارہ کام کرواتے ہیں یا پھر مارکیٹ میں کوئی دوسرا آدمی تلاش کرلیتے ہیں۔
اس ضمن میں ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ حوالہ ہنڈی کے کیسز میں ایف آئی اے افسران حوالہ کروانے والے شہریوں کو بطور گواہ شامل کرتے ہیں۔ لیکن یہ تعداد ایک یا دو ہوتی ہے۔ جبکہ ایجنٹوں سے جو ریکارڈ ملتا ہے۔ اس میں بعض اوقات درجنوں کلائنٹس کے نام اور کوائف ہوتے ہیں۔ لیکن باقی سب کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اکثر جب وفاقی حکومت اس میں مداخلت کرتی ہے، تو تاجروں کا وفد خود کو بچانے کیلئے حکومتی اراکین سے سفارش کرواتا ہے۔ ایف آئی اے پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے ان کلائنٹس کے خلاف کارروائی میں محتاط رہتی ہے۔ تاہم بیشتر کارروائیوں میں جب کلائنٹس کا ڈیٹا سامنے آتا ہے تو اس میں خود قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت دیگر سرکاری اداروں، سیاستدانوں اور بڑے تاجروں کے نام سامنے آجاتے ہیں۔ جن کیخلاف کارروائی کرنا تفتیشی افسر کے بس سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس حصے کو دبانا پڑتا ہے۔